• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ایک ہفتے میں لاہور جیسے بڑے شہر میں دو حاملہ خواتین نے سرکاری اسپتالوں کے باہر بچوں کو جنم دے دیا۔ پہلا واقعہ تو پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہزاروں کنال پر مشتمل محل کے نزدیک رائے ونڈ کے سرکاری اسپتال تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں پیش آیا۔ جس پر پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے حسب روایت شدید اظہار برہمی کیا اور فرمایا کہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کو حاملہ خواتین کو اسپتال داخل نہ کرنے پر سزا ضرور ملے گی۔ اب سزا کیا ہوگی؟ آپ ان کو معطل کردیں گے، پھر انکوائری شروع ہوگی اور آہستہ آہستہ لوگ اور میڈیا اس واقعہ کو بھول جائیں گا۔ عزیز قارئین آپ کو شاید اس دلچسپ حقیقت کا علم ہو۔ اس تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال پر وزیراعلیٰ 6مرتبہ اچانک چھاپے مار چکے ہیںاور ہر مرتبہ انہوں نے عملے کی سرزنش بھی کی اور ڈاکٹروں کو معطل بھی کیا۔ مگر ہوا پھر بھی کچھ نہ، وہی ڈھاک کے تین پات۔ میاں صاحب نے خود بھی اس واقعے پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں نے 6مرتبہ اس تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کا دورہ کیا۔ اربوں روپے دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے دیئے ہیں۔ غریب حاملہ خاتون کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر محکمہ صحت کا مانیٹرنگ کا نظام ہوتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ اس افسوس ناک واقعے نے موجودہ نظام کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ سب کچھ جناب آپ نے خود فرمایا ہے تو حضور والا اگر ہماری بات آپ کے دل پر گراں نہ گزرے تو کچھ عرض کریں۔ اس وقت صحت کے شعبے کے حوالے سے کم و بیش دس سے زائد اقسام کے ادارے اور بے شمار کنسلٹنٹ اور انتہائی بھاری بھرکم تنخواہوں پر مختلف ڈاکٹرز آپ نے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا فوج ظفر موج جوآپ نے رکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی مانیٹرنگ کے نظام کے لئے آپ کو مزید ادارے بنانے کی ضرورت ہے؟
آپ صرف تیس چالیس برس پیچھے مڑ کر دیکھیں، شعبہ صحت کے نظام کو چلانے والے افراد اور ادارے کتنے ہوتے تھے؟ اور اس وقت اس نوعیت کے کتنے واقعات پیش آتے تھے۔ ٹیچنگ اسپتالوں میں ایک ایم ایس، ایک اے ایم ایس، دو ڈی ایم ایس اور پرنسپل بلحاظ عہدہ چیف ایم ایس کے ہوتا تھا۔ آج ہر ٹیچنگ اسپتال میں بورڈ آف مینجمنٹ، بورڈ آف گورنر، پھر ایک اور محکمہ حال ہی میں سرکاری اسپتالوں کے نظام کو چیک کرنے کے لئے بنا دیا گیا ڈی جی ہیلتھ، سیکرٹری صحت، پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ، وزیر صحت اور کون کون سے ادارے بن چکے ہیں جہاں ایم بی اے پاس اور انگریزی بولنے والی لڑکیاں اور لڑکے رکھے ہوئے ہیں جنہیں سوائے پریزنٹیشن بنانے کے کچھ نہیں آتا۔ آپ ماہانہ اربوں روپے شعبہ صحت پر لگا رہے ہیں لیکن نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
میاں صاحب خدارا رات کو کبھی کسی بھی سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں اچانک چھاپہ تو ماریں، آپ کو بدترین صورتحال ملے گی۔ سرگنگا رام اسپتال کے گائنی وارڈ اور دیگر سرکاری اسپتالوں کے گائنی وارڈز میں جو زیادتی حاملہ خواتین سے ہو رہی ہے اس کی تصویر کچھ یوں ہے۔ کسی حاملہ خاتون کا اگر کارڈ گائنی یونٹ نمبر1 کا بنا ہوگا اور اس کی ڈلیوری کا وقت آجائے اور جب وہ ایمرجنسی میں آئے گی اور اس وقت اگر سرگنگا رام اسپتال کے یا سروسز اسپتال و دیگر سرکاری اسپتالوں کے گائنی یونٹ نمبر 2یا 3 یا 4 کی ایمرجنسی ہوگی تو وہ گائنی ون کی حاملہ مریضہ کو علاج کی سہولت تو کجا اس کا معائنہ بھی نہیں کریں گے۔ وہاں پر موجود سنگدل ڈاکٹرز اس کو وہاں سے دھکے دے کر بھیج دیتی ہیں۔
ہم اس قسم کے واقعات کے خود چشم دید گواہ ہیں۔ پھر ایک اور دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اگر سر گنگا رام اسپتال کے کسی بھی یونٹ کی حاملہ خاتون ایمرجنسی میں لیڈی ولنگٹن اسپتال، لیڈی ایچی سن اسپتال، شیخ زائد اسپتال یا سروسز اسپتال چلی جائے تو اس پر وہاں کے ڈاکٹرز دبائو ڈالتے ہیں کہ اسی اسپتال میں جائو جہاں سے کارڈ بنوایا تھا۔
حضور والا! کیا ولادت کا بالکل صحیح وقت اور دن کسی ڈاکٹر کو پتہ ہوتا ہے؟ پھر یہ ظلم نہیں کہ اگر کوئی اپنے گھر کے نزدیک سرکاری اسپتال میں ایمرجنسی میں چلی جائے تو اس کا علاج کرنے سے انکار کردیا جائے۔ شبانہ ریاض کا قصور یہ تھا کہ اس کے پاس سرگنگا رام اسپتال کا کارڈ نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کو اسپتال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا حالانکہ وہ پہلے لیڈی ولنگٹن اسپتال گئی وہاں کی لیڈی ڈاکٹروں نے اسے وہاں سے بھگا دیاجس کے بعد اس کا بچہ وہیں اسپتال کی سیڑھیوں پرپیدا ہوا۔ اس کے بعد اس نومولود بچے اور ماں کو کوئی طبی امداد نہ دی گئی حتیٰ کہ بچے کا سانس اکھڑنے لگا تب کہیں جا کر اسے طبی امداد دی گئی۔ یہ تو بھلا ہو پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا جنہوں نے موقع پر کارروائی کی اور اسپتال کے ایم ایس کو معطل اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا اور انہوں نے خود ابتدائی انکوائری کی۔ اس طرح رائے ونڈ کے سرکاری اسپتال میں بھی سمیرہ بیگم کو داخل کرنے سے انکار کردیاگیا کہ اس وقت اسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا اور اس خاتون نے سڑک پر بچے کو جنم دیا۔
سرگنگا رام اسپتال کے واقعے کی انکوائری انتہائی قابل احترام پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز، ڈاکٹر فرحت ناز اور ڈاکٹر ارشد چوہان نے کی ۔جس کے مطابق یہ عورت صبح سے داخل تھی اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کچھ کھا پی لو تاکہ ڈلیوری جلد ہو جائے کیونکہ بچے کی حرکات کچھ کمزور تھیں چنانچہ وہ کچھ کھانے کے لئے بے چاری خودباہر آئی اور ڈلیوری ہوگئی اب اس واقعے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس عورت کو وارڈ کے اندر کیوں نہیں کچھ کھانے پینے کو مہیا کیا گیا وارڈ میں ایسی حاملہ خواتین کے کھانے پینے کا انتظام ہونا چاہئے ۔غیر ممالک میں ڈلیوری کے لئے آنے والی مائوں کے لئے تمام سہو لتیں ہوتی ہیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
ہماری بات کا برا نہ منائیں، اس وقت شعبہ صحت میں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگرچہ پنجاب کے دونوں وزراء صحت خواجہ سلمان اور خواجہ عمران اور دونوں سیکرٹری صحت نجم احمد شاہ اور علی جان خان بہت کام کر رہے ہیں مگر تمام وسائل کسی ایک ٹریک پر بالکل نہیں ۔ مثلاً آپ پنجاب میں 29ہیپاٹائٹس کے فلٹر کلینک قائم کرکے کروڑوں روپے برباد کر رہے ہیں۔ ارے اللہ کے بندو ہر ٹیچنگ اسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ڈسٹرکٹ اسپتال آخر کس مرض کی دوا ہے ۔ کیا وہاں پر قائم میڈیسن، گردوں اور جگر کے امراض کے شعبے فلٹر کلینک کا کام نہیں دے سکتے؟
پھر آپ کے ہاں گائنی وارڈز اور بچہ وارڈز میں ایک ایک بستر پر تین تین مریض پڑے ہیں جبکہ بہت سارے ٹیچنگ اسپتالوں اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں اسکن وارڈ، شعبہ امراض اعصاب و پٹھہ اور شعبہ نفسیات میں بیڈز خالی پڑے رہتے ہیں جب اسپتالوں میں لوڈ زیادہ ہو تو کیا ان شعبوں کے بیڈز استعمال نہیں کئے جاسکتے؟ روزانہ تمام وارڈز کی رپورٹ لے کر جس وارڈ میں مریضوں کا دبائو زیادہ ہو وہاں سے مریض دوسری طرف شفٹ کردیئے جائیں۔دوسرے جب کسی انسان کو ایمرجنسی ہوتی ہے تو کیا اس کوصحت کارڈ/ گائنی وارڈ کا کارڈ رکھنا یاد رہتا ہے؟ ایمرجنسی میں کسی کوکسی بات کی ہوش ہوتی ہے۔ سڑک پر بچے کی ڈلیوری کے ان دونوں افسوسناک واقعات کا ایک اور پہلو بھی باعث شرم ہے کہ کئی ٹی وی چینلز نے ان دونوں خواتین کی فلم بار بار دکھائی۔ حالانکہ صرف خبر بھی نشر ہوسکتی تھی۔ جس ملک میں اس طرح کی خبریں بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کرلیں وہاں انسان میڈیا پر کیا تبصرہ کرے؟ ایک طرف وزیر اعلیٰ بار بار یہ کہتے ہیں جب تک غریبوں کو صحت کی سہولتیں نہیں ملیں گی چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ میاں صاحب آپ کو یقیناً ان واقعا ت پر تکلیف ہوئی ہے اور آپ کو چین نہیں آتا مگر آپ نے محکمہ صحت کے بےشمار افسروں کی فوج جو پرکشش تنخواہوں پر رکھی ہے ان پرکشش تنخواہوں والوں سے پوچھیں کہ انہوں نے غریب مریضوں کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کچھ کیا؟ (جاری ہے)

تازہ ترین