• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایس ای سی پی کی جہانگیر ترین کو رعایت سے قومی خزانے کو21 کروڑ 20 لاکھ کا نقصان

اسلام آباد (فخر درانی)اگرچہ جہانگیر خان ترین اور ان کے وکیل سپریم کورٹ کے سامنے یہ استدعا کر رہے ہیں کہ یو ایس ایم ایل میں انسائیڈر ٹریڈنگ ایک غیر ارادی عمل تھاتاہم ایس ای سی پی کی اس سلسلے میں تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ارادی اور ٹھیک ٹھاک منصوبہ بندی سے کیا گیا عمل تھا۔ دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات اور ایس ای سی پی کے کمپنی لا ڈویژن میں جہانگیر خان ترین کے انسائیڈر ٹریڈنگ کیس کے رازدار قابل بھروسہ ذریعے کے مطابق جے ڈی ڈبلیو شوگر کی جانب سے یونائٹیڈ شوگر ملز لمیٹیڈ کا حصول دھوکا دہی کے انداز میں ہوا تھا۔ لین دین میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کراچی میں جائیدادا کی خریداری کے لئے ٹوکن منی کی ادائیگی کی گئی ہے۔ یہی ٹوکن منی یو ایس ایم ایل کے خلاف حصص کے اسپانسر کی ادائیگی کے فوری بعد ری کور کرلی گئی تھی۔ ذریعہ کا کہنا ہے کہ ’’دھوکا دینے کی نیت واضح تھی۔‘‘ ایس ای سی پی میں قابل بھروسہ ذریعہ کے مطابق ایک نجی بینک نے یونائیٹیڈ شوگر ملز کے حصول کے لئے فنانس فراہم کیا تھا اور اس سلسلے میں فنانسنگ ارینجمنٹ سپورٹ کی ڈیل کا وجود فروری 2005 سے موجود تھا۔ فروری 2005 میں نجی بینک کو یو ایس ایم ایل کے حصول کے سلسلے میں خصوصی اختیار دیا گیا تھا اور جے ڈی ڈبلیو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بینک سے تقریبا 1650ملین کے سولیسٹی فنانسنگ اکاموڈیشن کے سے تصدیق ہوتی ہے یہ لین دین 2005 کے اوائل میں مکمل ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر خان ترین اور ان کے کچھ قریبی معاونین جن میں اکاؤنٹنٹس کا ایک گروپ یو ایس ایم ایل کے حصول کی تکمیل کے لئے لین دین سے متعلق معلومات رکھتا تھا اور ان سائیڈر ٹریڈنگ میں ملوث تھا اور اس نے 96 اعشاریہ 56 ملین روپے کا منافع کمایا۔ ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ یو ایس ایم ایل کے حصول کے لئے معاہدے پر پہنچنے کے بعد جہانگیر خان ترین نے یو ایس ایم ایل کے اسپانسرز کو 50 ملین روپے کی ٹوکن منی ادا کی۔ اس ادائیگی کو چھپانے کے لئے ایک پر فریب منصوبہ تیار کیا گیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جے ڈی ڈبلیو ، یو ایس ایم ایل کے اسپانسر سے جائیداد خرید رہا ہے۔ یہ ٹوکن منی جو 50ملین نومبر 2005 میں یو ایس ایم ایل کی جانب سے فروخت کی رقم کے 430 ملین ملنے کے بعد ری فنڈ ہوگئے تھے۔ ایک مرتبہ فروری میں جب ڈیل طے ہوگئی تو جہانگیر خان ترین نے اپنے ذاتی ملازمین یعنی باورچی اور مالی کے ذریعےیو ایس ایم ایل کے شیئرز خرید لیے۔اسی طرح شیئرز کی خریداری کے لئے ادائیگی ہوئی اور جہانگیر خان ترین کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ گئی۔ جہانگیر خان ترین کے تفصیلی موقف کو شامل کرنے کے لئے اس نمائندے نے واٹس ایپ کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا جو انہوں نے پڑھا لیکن انہوں نے کال یا پیغام سے جواب نہیں دیا۔ ان سائیڈر ٹریڈنگ میں ایس ای سی پی کی تحقیقات کے بعد جے کے ٹی نے طاہر محمود کو ایک خط تحریر کیا۔ جو اس وقت ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور اب ریگولیٹری باڈی کے کمشنر ہیں ، اس خط کی نقل دی نیوز کے پاس دستیاب ہے جس سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے ان سائیڈر ٹرینڈنگ میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کو کم سے کم قانون کی 6 دفعات کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا تھا۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے جہانگیر خان ترین کو کرمنل پروسیڈنگ سے بچانے کے لئے اپنی ہی تحقیقاتی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا جس کے نتیجے میں ان کو انسائیڈر ٹریڈنگ کے مقدمے میں تین سال قیداور 212 ملین روپے کا بھاری جرمانہ ہوسکتا تھا، جو قانون کی خلاف ورزی کے مترداف ہے۔ اس دوران کہ جب پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر خان ترین اثاثوں کو انکشاف کرنے میں ناکام رہنے پر قانون کے گھیرے میں آئے ہیں تو ان کے رازوں سے متعلق حقائق ابھر کر سامنے آر ہے ہیں۔ دی نیوز کو باخبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ 2008 میں ایس ای سی پی کے اعلی حکام کی جانب سے جہانگیر ترین پر 212 ملین روپے کا جرمانہ نہیں کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی انسائیڈر ٹریڈنگ کے کیس میں ان کے خلاف کرمنل پروسیڈنگ بھی نہیں ہوئی۔ جہانگیر ترین کو غیرقانونی طور پر کمایا ہوا منافع محض واپس کرنے پر مجبور کر کے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایس ای سی پی نے 2006 میں ترین کی جانب سے یونائیٹیڈ شوگر ملز لمیٹیڈ کے حصص میں ان سائیڈر ٹریڈنگ کرنے پر تحقیقات کی گئی تھیں۔ کمپنی کا ڈائریکٹر ہونے کی اپنی حیثیت کی وجہ سے ان کے پاس زیادہ قیمت وصول ہونے سے متعلق قیمتوں کی حساس معلومات تھیں۔ انہوں نے اپنی معلومات کو کمپنی کے 11 اعشاریہ 23 فیصد حصص خریدنے کے لئے استعمال کیا اور پھر ان حصص کو فروخت کر کے 70 اعشاریہ 8 ملین روپے کا غیرقانونی منافع کمایا۔ دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کی جانب سے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج آرڈیننس 1969 کے سیکشن 15 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسائیڈر ٹریڈنگ کرنے کا پتہ چلایا تھا۔ اس سیکشن کے مطابق انسائیڈرٹریڈنگ میں ملوث شخص کو تین سال تک قید یا غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے منافع سے تین گنا زیادہ جرمانہ یا اس طرح کی خلاف وزری کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے گریز یا دونوں کیے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین نے ایس ای سی پی کے نام اپنے 8 دسمبر 2008 کے خط میں اپنی غلطی تسلیم کی تھی، اس خط کی نقل دی نیوز کے پاس دستیاب ہے جس سے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ ایس ای سی پی کے قانون کے مطابق نگران ادارے کو چاہیے تھا کہ وہ ان پر 212 ملین روپے جرمانہ یا کرمنل چارجز فائل یا دونوں کام کیے جاتے، لیکن کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں فنانس ایکٹ 2008 کے ذریعے قانون کو تبدیل کر دیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے یہ کام بھی ایس ای سی پی کی سفارش پر کیا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ترین کے ایس ای سی پی کے نام خط سے پتہ چلتا ہے کہ ایس ای سی پی میں سے کسی نے ان سے غیرسرکاری طور پر تحقیقات کے نتیجے سے اتفاق کیا تھا اور یہ کام کسی رسمی حکم نامے کے جاری ہونے سے قبل اور تحقیقاتی رپورٹ کی فائنڈنگز کے خلاف تھا۔ وہ شخص جس نے جہانگیر ترین کے خلاف کیس کی نگرانی کی تھی وہ اس وقت ایگزیکـٹو ڈائریکٹر طاہر محمود تھے، جو اس وقت ایس ای سی پی کے کمشنر ہیں۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس ای سی پی کے متعلقہ حکام نے اس وقت معروف طریقہ کار سے انحراف کیا تھا۔ ایس ای سی پی میں قابل بھروسہ ذرائع کے مطابق اس کیس کی کارروائی سے قبل ایس ای سی پی کے ایک اہلکار نے اس انداز میں کارروائی کی تھی کہ جو دیے گئے اختیارات کے مطابق نہیں تھی۔ تحقیقاتی افسر کے اخذ کردہ نتائج کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیے بغیر ہی کیس ختم کر دیا گیا تھا۔ ایس ای سی پی کی جانب سے جہانگیر ترین کی حمایت کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ای سی پی نے عدالتوں سے بھی رجوع نہیں کیا تا کہ ان کے خلاف کمپنیز آرڈیننس 1984 کے تحت امانت دارانہ رویہ نہ رکھنے پر کسی کمپنی کا ڈائریکٹر بننے پر پابندی عائد کرانے کے لئے حکم امتناعی حاصل کیا جاتا۔ دی نیوز نے ایس ای سی پی سے اس کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا۔ ایس ای سی پی نے دی نیوز کے سوالات سے یہ کہہ کر گریز کیا کہ ’’اس سلسلے میں اٹھائے گئے کسی بھی سوال پر کوئی تبصرہ یا جواب عدالتی کارروائی پر پہلے سے کوئی رائے قائم کرنے جیسا ہوسکتا ہے۔‘‘ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ دی نیوز کی جانب سے ایس ای سی پی کے کردرا کے حوالے سے سوالات کا عدالت کی کارروائی سے کوئی بعید ترین تعلق بھی نہیں ہے۔ دی نیوز نے 11 اکتوبر 2017 کو مندرجہ ذدیل سوالات ایس ای سی پی کو بھیجے تھے۔ (1) وہ افسران کون تھے جنہوں نے جہانگیر ترین کے کیس کو ڈیل کیا تھا، یعنی تحقیقاتی افسران، سپروائزرز، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز؟ (2) ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کو 11 جنوری 2008 کو خط تحریر کیا تھا جس میں بیان کیا گیا تھا کہ ’’کمیشن نے آپ کی جانب سے حاصل کیا گیا منافع جو 70 اعشاریہ 811روپے تھا، ادا کرنے کی پیش کش کو قبول کرلیا ہے۔‘‘ مہربانی فرما کر مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں: (اے)قانو ن کے مطابق ایس ای سی پی کو ’’پیشکش‘‘ یا پلی بارگین یو ایس 15 (بی)(تھری)کو قبول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ کمیشن کے پاس جو واحد اختیار ہے وہ یہ ہے کہ وہ جرمانہ عائد کرے یا ہدایت کرے کہ مذکورہ قانون کے سیکشن کے تحت ہرجانہ ادا کیا جائے۔ ’’پیشکش اور قبولیت‘‘ کی اصطلاحات کیو ں استعمال کی گئیں؟(بی) ایس ای سی پی نے لازمی سیکشن 15 (بی) (4)لاگو نہ کر کے قانون کی خلاف وزری کیوں کی؟ (سی) سیکشن 15 (بی) (4) کو لاگو کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے قومی خزانے کو 210 ملین روپے کانقصان ہوا، اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ (ڈی)ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کے خلاف مذکورہ سیکشن کے تحت کرمنل پروسیڈ کیوں نہیں کیا؟ (ای) ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جہانگیر ترین پر تحقیقاتی رپورٹ میں انہیں ایس ای او 1969کے سیکشن 15 اے کی تعمیل نہ کرنے والا پایا گیا تھا۔ (ایف) دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن کی جانب سے منظوری تین جنوری 2008 کے اجلاس میں ای ڈی انفورسمنٹ سے لی گئی تھی۔ای ڈی انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کمیشن کو کیا تجویز/ درخواست پیش کی گئی۔ (3) برائے مہربانی اس کی تصدیق کریں کہ کس کو 15 اے استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا تھا؟ (4) ایس ای او 1969 میں فنانس ایکٹ کے ذریعے کیوں ترمیم کی گئی تاکہ انسائیڈر ٹریڈنگ کے جرم کو کرمنل سے سول میں تبدیل کیا جاسکے؟ اور اب اسے دوبارہ کیوں کرمنل بنا دیا گیا ہے؟ (5) ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین پر سیکشن 217 کیوں نافذ نہیں کیا جبکہ انہوں نے کمپنیز آرڈیننس 1984 کے سیکشن 214 اور 216 خلاف ورزی کی تھی؟ کیا یہ ایس ای سی پی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ عدالت سے رجوع کرتی؟ (6) ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ منافع کی پوری واپسی غیرمعمولی انداز میں کی گئی، یعنی اظہار وجوہ کا کوئی نوٹس جاری کیے بغیر۔ کیا یہ ایس ای سی پی میں معمول کی بات ہے؟ اگر ہاں تو ایسے دیگر کتنے مقدمات ہیں جن سے اس انداز میں نمٹا گیا ہے۔ تاہم ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے بجائے ایس ای سی پی کی انتظامیہ نے جواب دیا کہ ’’ایس ای سی پی کا موقف جاننے کے لئے آپ کا شکریہ۔ تاہم مہربانی فرما کر یہ سمجھ لیں کہ جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2016 کی آئینی درخواست نمبر 36 کے تحت زیر سماعت ہیں اور ان کی یومیہ بنیادوں پر پاکستان کی معزز سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ایک کے سامنے سماعت ہورہی ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں اٹھائے گئے سوالات پر کوئی بھی تبصرہ یا جواب عدالتی کارروائی پر پہلے سے کوئی رائے قائم کرنے کی طرح ہوسکتا ہے۔ آپ اس معاملے پر رپورٹنگ کرتے ہوئے اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھ سکتے ہیں۔
تازہ ترین