• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پاکستانی تاریخ کے دائروں کا سفر ہے۔
یہ پاکستان میں آئینی و جمہوری تسلسل اور مخالفین کی طاقت و تصادم کا سفر ہے۔
یہ سفر لیاقت علی خان کی شہادت اور خواجہ ناظم الدین کے ’’پڈی‘‘ ہونے کے نقص باعث شروع ہوا، یہ مخلص اور غیر مخلص منفی قوتوں کا پاکستان کو آئین و جمہوریت کی اس پٹڑی سے اتارنے کا سفر ہے جسے عوام اپنے ووٹوں سے بچھاتے اور ملک و قوم محفوظ و متوازن ترین بنیادوں پر ارتقا پذیر رہتے ہیں۔
یہ پاکستان کے سیاسی اداروں اور جمہوری تسلسل کے مقام و مرتبہ کی تذلیل، توہین اور بیخ کنی کا سفر ہے، اسے ان لوگوں نے خراب کیا جنہوں نے ہمیشہ انہی سیاستدانوں اور سیاسی اداروں کے صدقے ملکی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے پیداواری نتائج کے سبب شاندار زندگیاں گزاریں اور گزار رہے ہیں۔
یہ برصغیر میں اس مخصوص طاقتور زعما پرست مزاج اور اتھرے اظہار کا سفر ہے جس کے بعد کبھی 1857ء ہوتا ہے اور کبھی سقوط مشرقی پاکستان۔
یہ نواز شریف کے سیاسی حق کو مقابل کے سیاسی حق کی جانب سے عوامی ووٹ کی بنیاد پر مسترد کرنے کا سفر نہیں ہے، یہ ان لوگوں کی من منشا اور خود نمائی و خود پرستی کا سفر ہے جن کے غیر آئینی ادوار منتخب سیاسی حکمرانوں کے ادوار کے مقابلے میں کسی بھی لحاظ سے رتی بھر وقعت نہیں رکھتے یہ طاقت کے کم ظرف ترین اظہار اور ان کی عقلوں کے اختلال کا سفر ہے۔
چنانچہ ریاض پیرزادہ، چوہدری نثار، شیخ رشید، سراج الحق، ممتاز بھٹو ، پیر صبغت اللہ پگارا، ایاز لطیف پلیجو، طاہر القادری حتیٰ کہ عمران خان، پاکستان کی تاریخ کے ان دائروں کے اپنی اپنی نوعیت کے روایتی مسافر ہیں، ان میں سے ہر ایک کی شخصی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، ذاتی کردار ایک دوسرے سے قطعی برعکس ہو سکتا ہے مگر قومی ارتقا کو آئینی و جمہوری تسلسل کے بجائے نظریاتی شدت پسندی، ذاتی تعصب و مفادات اور عوامی ایکسپلانٹیشن کے بےصبرے زاد راہ سے زوال و تباہی سے دوچار کرتے رہنا ان کی قدر مشترک ہے۔ قومی زیاں کے اس نکتے پر ایسے تمام کردار مشترک و متفق ہیں۔
نواز شریف کے منتخب اقتدار کو گرائے جانے کے بعد کا منظر نامہ پاکستان کے انہی تاریخی دائروں کے سفر کا منطقی حاصل ضرب ہے۔ کیا ریاض پیرزادہ وہ پہلا کردار ہیں جنہیں قومی سطح کی اپنی سیاسی جماعت کے منتخب صدر کو معزول ہونے کی بنیاد پر مائنس کر کے راولپنڈی کے بریگیڈ گیارہ کے انداز میں جماعت کو Take Overکرنے کی مہم جوئی سوجھی ہے؟
کیا لال حویلی کے شیخ رشید وہ پہلے کردار ہیں جو کسی قومی سیاسی جماعت میں، 40ٹوٹ گئے، 50ٹوٹ گئے کے سیاسی فساد پر اطمینان بھری خوشی سے بے حال ہو رہے ہوں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے صائب و شداد ہے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے بی بی کا عدالتوں کا ’’ایک دن ‘‘ ان سب کی عدالتوں میں اب تک اور آئندہ کی پیش گوئیوں پر بھاری رہے گا۔ یہ عظمت بی بی شہید کا پاکیزہ سیاسی جہیز ہے، کوئی اس پر ہاتھ صاف نہیں کر سکتا، وقت کا محتسب اسے گردن سے پکڑ لے گا لیکن وقت کا ایک لمحہ وہ بھی تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ذمہ دار سیاسی مخالفین ضیاء الحق کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لئے اس ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ 70کلفٹن گئے۔ بیوگی اور آہوں میں لپٹی بیگم بھٹو اور بی بی شہید نے ان سے مذاکرات کئے، ایک وقت وہ بھی آیا، انسانیت کے ایوان میں ہمیشہ شرمندگی کے بے برکت مقام پر بیٹھا اور ایک پیشی کے موقع پر آصف علی زرداری کے پائوں پکڑ کے رو رو کر معافی مانگنے والا سیف الرحمٰن، جب ’’ن‘‘ لیگی قیادت کے کندھے پر سوار ہو کے بی بی شہید کے معاملے میں ہر اخلاقی حد و حساب کو الٹی چھری سے ذبح کر رہا تھا، اسی ’’ن‘‘ لیگی رہنما نواز شریف سے اسی بی بی شہید نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ دستخط کیا۔ کیا بی بی کو اپنے دکھ، اپنی توہین اور ایک ناقابل تسلیم انسانی وجود سیف الرحمٰن کے ہاتھوں بے عزتی یا چھوٹے بچوں کی انگلیاں پکڑ کر جیل کے دروازے کے سامنے بیٹھنا یاد نہیں تھا لیکن انہوں نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیا۔ کس لئے؟ پاکستان کے لئے! کیوں کیا؟ تاکہ ہماری آئندہ نسلیں بندوق کی وحشت کا نہیں ووٹ کی تہذیب کا راستہ اختیار کر سکیں، ان کے لئے دنیا میں احترام کی سند جاری رہے جو یہاں حقیقی عزت کے سرفراز ہوئے۔ وہ وہاں بھی اسی حقیقی عزت کے سزاوار ہوں گے۔ آصف علی زرداری سابق صدر مملکت ہیں، ان جیسا ’’میڈیا ٹرائل‘‘ نواز شریف کے پاس سے ابھی چھو کر بھی نہیں گزرا لیکن جناب سابق صدر ! آپ تو سارے دلدر پارلیمنٹ کو ریفر کرتے تھے، آپ نے اپنی راہوں کی تمام محرومیوں کے لئے، ان کی بے پناہ زیادتیوں کے علی الرغم، ہمیشہ جمہوری پلیٹ فارم کا انتخاب کیا، آپ سے زیادہ کون ادراک کرے گا۔ آپ کی آج کل کی گفتگو، اپنے آخری سرے پر ان تمام افراد اور قوتوں کو تقویت دے رہی ہے جنہیں بالآخر ، آپ کے ہاتھوں، پانچ برسوں کی منتخب حکومت کے بعد آئینی بنیادوں پر اقتدار کی آئینی منتقلی کی طلوع ہوتی ہوئی تاریخ ساز صبح پسند نہیں آئی تھی، وہ غیر آئینی تاریکیوں کے عادی ملک کے چاروں اور پھیلی ہوئی روشنی برداشت نہ کر سکے اور دوسری منتخب حکومت کی آئینی مدت سے صرف آٹھ دس ماہ پہلے جمہوری تسلسل کی سیاسی قوت پر کاری حملہ آوری میں کامیاب رہے، باقی سب نفس پرستانہ قصہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت، بہت احترام و محبت کے ساتھ کہنا ہے، ملک کے ان ایام میں آپ بھلے، نواز شریف کا فون نہ سنیں انہوں نے بھی آپ سے ملاقات منسوخ اور اس وقت کے آرمی چیف کو فون کر کے ملک و قوم کا کوئی بھلا نہیں کیا تھا، لیکن کیا ’’میثاق جمہوریت‘‘ آپ کو ان اسباب کی یاد نہیں دلاتا جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے پاکستان کے عوام کے فیصلے اور آئینی حلف کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی ذات کو آئین قرار دیا، میثاق جمہوریت، سیاسی شق کے دوران میں وقوع پذیر معاملات کو طے کرنے کی قومی دستاویز ہے، اب آپ اس کا حوالہ نہیں دیتے اور جب اس وقت ’’2018میں حکومت بنا کر انتقام نہیں لیگی اقتدار کا حساب لیں گے‘‘ جیسے بیانات والے ہوں، تب آپ ہر قسم کے غیر جمہوری ماحول اور عناصر کی مضبوطی کی وجہ بنتے ہیں، شیریں اعلیٰ تعلیم یافتہ، بلند پایہ صحافیانہ اثاثے کی مالک اور نظریاتی سیاسی کارکن ہیں، وہ حوالے ضرور دیں تاہم ریاض پیرزادہ کے لئے حق گوئی کا سنگھاسن فراہم نہ کریں، سچ انسان کی جنت ہے اس میں دنیاوی آلودگیوں کو شفافیت دینے سے جہنم کے اثرات در آتے ہیں، ’’ن‘‘ لیگ کی مخالفت آپ لوگوں کا حق ہے لیکن یہ حق عام قومی انتخابات کے انعقاد کی جدوجہد اور جمہوری تسلسل کے لئے استعمال ہونا چاہئے نہ کہ ان افراد کے ساتھ نظر آنے یا کھڑے ہونے کے لئے جنہیں منتخب آئینی جمہوریت کے تسلسل سے ازلی و ابدی بیر ہے۔ ’’مائنس ون‘‘ کی ناتمام حسرتوں میں مبتلا ان دائروں کے سفر میں شہباز شریف، چوہدری نثار، سراج الحق، طاہر القادری اور عمران خاں کا تذکرہ بھی ہوا ہے، یہ تذکرہ کسی بھی قسم کے فکری ابہام کا شکار نہیں، مثلاً سراج الحق، ذاتی سطح پر، جماعتی سطح پر، زہد و تقویٰ کے حامل ہیں لیکن جب وہ احتساب بروقت نہ ہونے پر ’’چوراہوں پر عدالتیں لگیں گی‘‘ کا بیان دیں تب آپ انہیں ہمیشہ اسی معیار کے آئینے میں دیکھیں، وہ آئینہ کیا ہے؟ پاکستان میں دینی جماعتوں کو اقتدار کے لئے منتخب نہیں کیا جانا چاہئے انسان نارمل زندگی کا خواہاں ہے، مذہبیت کا نظریاتی ذہن ملک و قوم میںقطعی توازن نہیں رہنے دیتا۔

تازہ ترین