• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس میں سوشلزم کے سرخ انقلاب کو آئے ہوئے سو سال ہو چکے ہیں۔ لیکن ایک ہی صدی کے دوران روس سوویت یونین کی شکل میں دنیا کی سپر پاور بھی بنا اور پھر ایک دن اس کا پورا نظام اپنے ہی بوجھ تلے دب کر تباہ و برباد ہو گیا۔ روس میں سوشلزم کے خاتمے کے ساتھ ہی وہاں کی کیمونسٹ پارٹی معدوم ہوتی چلی گئی اور ملک پر بڑے بڑے مافیاؤں کا قبضہ ہو گیا۔ روس کی معیشت سکڑ کر شاید اٹلی کے برابر ہو گئی ہے اور اس کی دنیا کو متاثر کرنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف چین میں بھی ماؤزے تنگ کی سربراہی میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ چین میں بھی روس کی طرح کلاسیکل سوشلزم کا ماڈل اپنایا گیا جس میں تمام ملکیت ریاست کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن تیس چالیس سال گزرنے کے بعد چینی رہنماؤں پر واضح ہو گیا کہ سوشلزم کے کلاسیکل ماڈل کے تحت مزید ترقی نہیں ہو سکتی چنانچہ انہوں نے معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک میں منڈی کا نظام رائج کردیا اور ذاتی ملکیت کی اجازت دے دی۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے اور اب وہ دنیاکو متاثر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہا ہے۔ بادی النظر میں چین دنیا کی منڈیوں پر چھاتا جارہا ہے۔ لیکن چین اور روس میں کلاسیکل سوشلزم کے ماڈلوں کی ناکامی میں ایک فرق ہے: روس میں سوشلزم کے خاتمے کے بعد ملک سیاسی طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا جبکہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی طاقت میں کوئی فرق نہیں آیا اور اس کی معیشت پر گرفت مضبوط تر ہوتی گئی ہے۔
کلاسیکل سوشلسٹ ماڈل کی ناکامی کی کئی توجیہات کی جاتی ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے حامی تو سوشلزم کو انسانی فطرت کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی ناکامی کو تاریخ کا منطقی نتیجہ قرار دیتے ہیں : ان کا عقیدہ ہے کہ ذاتی ملکیت بنانا انسان کی بنیادی حس ہے اور اس کی نفی ہونا ممکن ہی نہیں۔ کچھ مفکرین کلاسیکل سوشلزم کی ناکامی کو کمیونسٹ پارٹیوں کی خود غرضانہ طرز فکر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ بعض سنجیدہ معیشت دان سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ نظام میں وسائل کی تقسیم کا ویسا نظام موجود نہیں تھا جو کہ منڈی کے نظام میں ہوتا ہے: منڈیاں خود بخود وسائل کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر دیتی ہیں جو کہ سوشلزم میں بندھے ہوئے کمیونسٹ نوکر شاہی نہیں کر سکتی۔ یہ توجیح کسی حد تک درست نظر آتی ہے کیونکہ چین نے مرکزی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ منڈیوں کے نظام کو بھی بحال کردیا جس سے وسائل کی بہترین تقسیم عمل میں آنا شروع ہو گئی اور معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔
چین نے مغربی طرز کے سرمایہ داری معاشی و سیاسی ماڈل کو بھی بہت حد تک غلط ثابت کر دیا ہے۔ مغرب کے سرمایہ داری ماڈل میں مسلسل معاشی ترقی کے لئے جمہوری نظام ناگزیر ہے اور ریاست کی معیشت میں مداخلت کمترین سطح پر ہونا چاہئے۔ چین نے کیمونسٹ پارٹی کے مخصوص نظام کو بھی قائم رکھا ہے اور منڈی کے نظام کے تحت معاشی ترقی بھی کی ہے۔ ابھی تک چین کی کیمونسٹ پارٹی نےمنصوبہ بندی پر اپنی گرفت مضبوطی سے قائم کی ہوئی ہے۔ اسی کے تحت جب اس نے آبادی کے کنٹرول کے لئے ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کو اپنایا تو اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ اب اس پالیسی کے منفی نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ہیں جن کی تصحیح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ امر واضح ہے کہ چین نے جس طرح سے منڈی کے نظام اور مرکزی منصوبہ بندی کو یکجا کیا وہ اپنی جگہ پر بے مثال تاریخی تجربہ ہے۔
اگرچہ چین ویسی نظریاتی ریاست نہیں جیسی کہ وہ ابتدا میں تھی لیکن اس نے مارکسی نظریے کے ایک بنیادی تصور کو ہر صورت میں اپنائے رکھا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی مارکس کے اس نظریے پر کاربند رہی ہے کہ ہر سماجی مظہر کی بنیاد مادی حالات یا معاشیات میں ہوتی ہے۔ چنانچہ چین نے یکسو ہو کر معاشی ترقی کو اولین حیثیت دی جس نے چینی معاشرے کی خود بخود کایا کلپ کردی۔ چین نے صنعتی ترقی کے تمام لوازمات پورے کئے اور اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے۔ یہ بھی زیر نظر رہے کہ چین نے اپنے جدید دور میں عالمی تنازعات کو ثانوی حیثیت دی اور تائیوان جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر جنگ جوئی کا راستہ نہیں اپنایا۔ اس کے الٹ اگر پاکستان کی ریاست کو دیکھیں تو اس نے ابتدا سے ہی عسکری سیکورٹی کو بنیاد بنا کر عالمی تنازعات کا حصہ بننا قبول کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان معاشی طاقت کی بجائے ایک سیکورٹی ریاست بن چکا ہے۔ مزید برآں پاکستان کی ریاست نے مذہبی بیانیے کو معاشی ترقی پر ترجیح دی جس کے نتیجے میں ہر طرف مذہبی مناقشت نظر آتی ہے۔
چین نے اپنے ابتدائی دور میں کلاسیکل سوشلزم کو اپناتے ہوئے جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کردیا اور عوام کی تعلیم اور صحت کو بنیاد بنایا۔ اگرچہ اس دور میں چین میں ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کی وجہ سے بہت زیادتیاں بھی ہوئیں لیکن چین نے اس سے سبق سیکھا اور اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کا مقصد چینی معاشرے سے جاگیرداری دور کی سماجی باقیات کو ختم کرنا تھا لیکن شاید چینی معاشرہ اتنی بڑی تبدیلی کے لئے تیار نہیں تھا جس کی وجہ سےریاست کی پالیسیاں متشدد ہو گئیں۔ چین کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ اس مرحلے سے بسلامت گزر گیا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ کلاسیکل سوشلزم کے دور میں جو پالیسیاں اپنائی گئیں انہی کی وجہ سے بعد میں ترقی ہوئی۔ چین کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر مادی یا معاشی تبدیلیوں کو بنیاد بنایا جائے تو مغربی طرز کی ترقی کا ایک متبادل راستہ بھی ہے۔ اب جب چین دنیا کی بڑی طاقت بن گیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ مغربی طاقتوں کی طرح ایک سامراجی طاقت بھی بنے گا نہیں۔ ظاہراً تو چین بھی اپنی معاشی طاقت کو توسیع پسندی کے لئے استعمال کر رہا ہے اور پاکستان میں سی پیک جیسے منصوبے اسی حقیقت کا مظہر ہیں۔

تازہ ترین