• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن چار گھنٹے کے مختصر دورے پر پاکستان آئے تو اسے کیا نام دیا جائے؟ نشستند، گفتند اور برخاستند یا کچھ حاصل حصول بھی ہوا؟ جی ہاں روابط برقرار رکھنے اور افہام و تفہیم کا عمل آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے دوطرفہ تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کو اگر خطے کے لیے نئی امریکی پالیسی پر تحفظات ہیں تو امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے بھی سوالات و اعتراضات ہیں۔ اس تناظر میں دونوں نے ایک دوسرے سے ڈومور کے مطالبات بھی کئے ہیں۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ اپنے صدر کا یہ پیغام دینا نہیں بھولے ہیں کہ پاکستان کو اپنے ملک میں سرگرم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس نتائج دینا ہوں گے۔ اسلام آباد آمد سے قبل کابل کی پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا انحصار طالبان کے خلاف ایکشن پر ہو گا۔ اُن کے الفاظ تھے ’’اسلام آباد طالبان اور دیگر انتہا پسند جنگجوئوں کے خلاف ایکشن لے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے‘‘۔ یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان اپنے ہاں موجود دہشت گرد گروپوں کے بارے میں آنکھیں کھولے‘‘۔ ظاہر ہے سفارتی زبان میں یہ ایک سخت انتباہ تھا جس پر پاکستان میں کئی حلقوں نے اعتراض بھی کیا ہے کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دی ہیں جن کی بشمول امریکہ دنیا میں قدر نہیں کی جا رہی۔ بلاشبہ ہمیں افغانستان اور ہندوستان کی باہمی دوستی پسند نہیں مگر کیا کیا جائے عصر حاضر میں اقوامِ عالم کے درمیان تعلقات کا جو چلن ہے اس میں کسی کی خودمختاری پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ افغانستان، اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور سارک کا ایک خود مختار ملک ہے اپنے داخلی یا خارجی تعلقات و معاملات میں وہ آزاد ہے جو پالیسی چاہے اختیار کرے۔
درویش بارہا اپنی تحریروں میں یہ اظہارِ خیال کرتا چلا آرہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں سب سے بڑا سقم، خامی یا کوتاہی انڈیا دشمنی کا محور ہے حالانکہ ہم نے ہندو مسلم منافرت ختم کرنے کی غرض سے پارٹیشن جیسا انتہائی اقدام اٹھایا تھا مگر افسوس اس سب کے باوجود ہم اس نفرت یا خوف سے تو باہر نہیں آسکے البتہ دیگر متنوع فرقہ وارانہ منافرتیں مزید پال لی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم منافرتوں پر مبنی سوچ اور پالیسیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں۔ اپنے آپ کو راہِ اعتدال پر لاتے ہوئے اقوامِ عالم سے صلح جوئی، انسان نوازی اور امن و سلامتی کی سوچ کو اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی کا محور مان کر برتاؤ کریں۔ جذبہ خود احتسابی کے تحت ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ افغانستان کے لیے اتنی قربانیاں اور لاکھوں افغان پناہ گرینوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود آج افغان عوام ہماری نسبت بھارت کے زیادہ قریب کیوں ہیں؟
کہیں یہ وجہ تو نہیں کہ انڈیا نے ہماری نسبت افغانوں کو زیادہ اعتماد دیا ہے۔ وہاں جتنی سرمایہ کاری انڈیا نے کی ہے، جتنا انفراسٹرکچر انڈیا نے اپ گریڈ کیا ہے، اُن کے معاشی و ترقیاتی منصوبوں میں جتنی معاونت انڈیا نے کی ہے یہ اُسی کا ثمر ہے کہ آج افغانستان اور ہندوستان یک جان دو قالب بنے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ دہشت گردی کے خلاف پیشکش کے باوجود بھارت نے وہاں اپنی افواج بھیجنے سے تاحال اجتناب کیا ہے لیکن خطے میں امن و سلامتی کے حوالے سے اپنی پالیسی کو متوازن رکھا ہے۔ اگرچہ ہمیں اعتراض ہے کہ وہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف پراکسی کروا رہا ہے لیکن بات تو تب ہے جب ہم عالمی برادری سے بھی اپنی یہ بات منوائیں جس طرح بھارت یہ منوانے میں کامیاب رہا ہے کہ ہماری طرف سے نہ صرف اُن کے ملک میں بلکہ افغانستان میں بھی مداخلت جاری و ساری ہے۔ ہم انصاف اور یقین کی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ اس نوع کی ناکامیوں کا بڑا سبب ہمارے اپنے غیر متوازن قومی رویے ہیں۔ اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں طاقتور اداروں سے مشاورت کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں جبکہ یہاں تو سارا معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔ آخر دنیا کے کس جمہوری ملک میں اس رویے پر اصرار کیا جاتا ہے کہ منتخب وزیراعظم طاقتور قیادت کا تابع مہمل بنا دکھائی دے رہا ہو۔ سفارتکار اُسی کو اصل طاقت خیال کرتے ہوئے ملاقاتوں پر مجبور ہوں۔ دفاعی چھوڑ داخلی، خارجی بلکہ معاشی امور پر بھی پالیسی بیانات جاری ہو رہے ہوں۔ پشت پر سات دہائیوں کی چار بغاوتوں کا بھاری بھرکم بوجھ ہو۔ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ مذاق بنے چلے آرہے ہوں۔
آج ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بے بسی سے جب یہ کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی اتنی حرمت تو بنتی ہے جتنی آپ دیگر اداروں کے لیے مانتے ہیں اس پر بھی قوم کی فکری رہنمائی کے دعویداروں نے ناجائز طور پر لے دے کی ہے حالانکہ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کی حرمت دیگر تمام اداروں سے بالاتر ہے۔ اس وجہ سے کہ تمام اداروں کی عزتیں اور حرمتیں آئین کا فیضان ہیں۔ یہ ادارے اپنے وجود کے لیے آئین کے مرہونِ منت ہیں آئین کی تخلیق یا آئین کے بچے ہیں جبکہ پارلیمنٹ قانون سازی کا منبع اور آئین کی ماں ہے جو آئین کو وجود بخشتی ہے یعنی خود آئین کی خالق ہے اس ناتے سے تقدس و حرمت کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں یہ امر بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس مملکت خداداد کے اصل مالک بیس کروڑ عوام ہیں۔ دیگر تمام ادارے اس مملکت کے ملازم اور پبلک سرونٹ کہلاتے ہیں جبکہ ارکانِ پارلیمنٹ بیس کروڑ عوام کے نمائندے اور ان کی امنگوں کے ترجمان ہیں۔ اگر اقتدار کا منبع عوام ہیں تو اس طاقت کا بالفعل مظہر ادارہ کوئی اور نہیں منتخب پارلیمنٹ ہے لہٰذا ہم علی وجہ البصیرت یہ کہتے ہیں کہ دیگر تمام اداروں کی کلیدی تقرریاں پارلیمنٹ کے تحت یا منظوری سے ہونی چاہئیں۔
ہماری نظر میں اس وقت قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ’’آزادیٔ اظہار‘‘ پر کچھ نظر آنے والی اور کچھ نظر نہ آنے والی قدغنیں ہیں جن کے باعث افرادِ قوم کی فکری تطہیر مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔ سوسائٹی میں خوفناک قسم کی کنفیوژن ہے۔ اہل وطن کی سوچوں پر پہروں کے شکنجے دن بدن کسے جا رہے ہیں اس کشمکش میں کوئی باضمیر لکھاری یا دانشور اصل حقائق کیسے بیان کر سکتا ہے۔ صحت مند مکالمے یا کھلے مباحثے کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال تو رہے ایک طرف ابھی حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی تلخ گوئی پر مجبور ہوئے ہیں جنہیں بجا طور پر یہ دکھ ہے کہ یہاں ستر سالوں میں کبھی کسی منتخب وزیراعظم کو اس کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آزادیٔ اظہار پر یقین رکھتا ہوں اور یہاں ہر ایک کو رائے کے اظہار یا اختلاف کا حق حاصل ہے مخالفانہ نقطہ نظر کو جبراً دبانا قابلِ مذمت ہے۔
تین مرتبہ منتخب ہونے والے قومی رہنما کی بے بسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل خرابی یا تمامتر خرابیوں کی جڑ کہاں ہے۔ فکری آزادی کے دشمن ہی درحقیقت مملکت پاکستان کے روشن چہرے کو داغدار کرنے کا باعث ہیں۔ عصرِ حاضر کی شعوری ترقی حریت فکر، انسانی حقوق اور آزادیوں کا تقاضا کرتی ہے ہمارا آئین اور یواین ہیومن رائٹس چارٹر بھی اسے تحفظ بخشتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی اس خرابی پر قابو پالیا تو نہ صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ ہماری داخلی و خارجی پالیسیاں بھی اتنی متوازن ہو جائیں گی کہ وطنِ عزیز پاکستان اقوامِ عالم میں باوقار اور مہذب و ممتاز مقام حاصل کر لے گا۔

تازہ ترین