• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانوں کی طرح دیگر مخلوقات بھی نسل، علاقے اور آب و ہوا کے حوالے سے انفرادی پہچان کی حامل ہیں۔ انسانیت کی بات کریں تو شروع سے لے کر آج تک ایک ہی نسل یعنی نسلِ آدم کا تسلسل جاری ہے۔ مگر آب وہوا، رسم و رواج اور زمین کا مخصوص مزاج لوگوں کو ایک خاص شناخت عطا کر کے اُنہیں انفرادیت بخشتا ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں یعنی پہچان کا ظاہری وسیلہ مٹی اور ماحول ہی سے جُڑا ہوا ہے تاہم دھرتی کے اثر کے ساتھ ساتھ قدرت کی طرف سے ہر فرد اور مخلوق کو ایسی صلاحیتیں بھی ودیعت کی گئی ہیں جو انکے جداگانہ تشخص کو ظاہر کرتی ہیں۔ باطنی تغیرات کے علاوہ شکل، رنگ، قد اور نقش یعنی ظاہری ہیئت میں بھی فرق رکھا گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں کروڑوں انسان آباد ہیں مگر ایک جیسے سانچے یعنی حُلئے کے باوجود ان کی شکل و شباہت ایک سی نہیں۔ اسی فرق سے قبائل اقوام اور نسلیں وجود میں آئیں۔
مچھلیوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ اِن میں سے ایک قسم ڈولفن کی ہے جو اپنے ذہن کے لاکھوں خلیوں میں سے 20 فیصد استعمال کرتی ہے جبکہ حضرت انسان ابھی تک کائنات کی تسخیر کے تمام سفر میں صرف 10 فیصد تک دماغ کے خلیوں کا استعمال کر پایا ہے۔ اس طرح ڈولفن جانداروں میں ایک فطین مخلوق کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اس کو قدرت کی طرف سے تحفظ اور ہمدردی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انسان دوستی کی وجہ سے سائنس دانوں نے ڈولفن کو Non Human Person کا خطاب دِیا ہے۔ یہ ہمیشہ اپنا رُخ خشکی کی جانب رکھتی ہے اس لئے سمندر میں بھٹک جانے والے جہاز اس کا پیچھا کرتے ہوئے ساحل کی طرف آتے ہیں۔ یہاں اس کا کردار رہنما کا ہے جسے منزل کی سمت معلوم ہے، جس کی آنکھوں میں کنارے تک پہنچنے کا نقشہ موجود ہے اور جو قافلے کی گائیڈ بن کر لمبا سفر طے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ انسانوں کے تحفظ اور رہنمائی کے علاوہ یہ کمزور سمندری مخلوق کو شارک کے خطرناک حملوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ چونکہ ہمیشہ جوڑے کی صورت میں سفر کرتی ہے اس لئے یہ ظلم کرنے والوں کو آسانی سے پچھاڑ دیتی ہے۔ نیک اور مثبت وجود بذات خود طاقت کا منبع ہوتا ہے۔ شر اور باطل کی قوتیں اُس سے اُلجھنے کی ہمت ہی نہیں کرتیں۔ اگر ڈولفن کے طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ خیر کی علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جو کمزوروں کی مدد کرتی ہے اور ظالموں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ خواہ مخواہ مہم جوئی کی خاطر لڑائی جھگڑا نہیں کرتی۔ ہمارے صوفیا کی بھی یہی روایت رہی ہے۔ وہ نچلے طبقات کے افراد کو گلے لگاتے اور طاقتوروں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتے رہے ہیں۔ یوں ڈولفن سمندری حیات میں صوفیانہ طرزِ عمل کی حامل مخلوق ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے پوری کائنات اور تمام جہانوں کے ہر حصے یعنی خشکی، سمندر، پہاڑوں، دریاؤں اور خلاؤں میں رہنمائی کے لئے کچھ مخلوقات کو خصوصی فرائض سونپ رکھے ہیں تاکہ قدرت کا نظام چلتا رہے اور ایک مطلوبہ توازن بر قرار رہے۔ اِس کے لئے جن کو چُنا جاتا ہے وہ اپنے اردگرد کا بہتر شعور رکھتی ہیں اور اِسی وجہ سے وہ مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سمندری حیات میں ڈولفن بھی ایک مصلح، ایک سپاہی اور ایک دوست کی طرح تحفظ اور اپنائیت کی چھتری تانے کھو جانے والوں کو کنارے کی طرف لے جانے کا فریضہ سر انجام دیتی رہتی ہے۔ وہ ہر لمحہ گشت پر رہتی ہے ایک ایسے چوکیدار کی طرح جو کبھی نہیں تھکتا، اُس کی تیز نگاہیں دُور مسائل میں گھری مخلوق کو تلاش کر لیتی ہیں، کبھی وہ پانی میں آہیں بھرتے درد کو محسوس کر کے اور کبھی دل میں بجنے والے سائرن پر چوکنا ہو کر خوشبو سونگتی اُدھر دوڑ لگا دیتی ہیں جہاں کوئی بے بسی کی تصویر بنا معجزے کا منتظر ہوتا ہے۔ انسانوں کی زندگی کنارے سے وابستہ ہے۔ کنارہ منزل کا استعارہ ہے، کنارے لگنا کامیابی کی علامت ہے۔ دریا اور سمندر پار کرنا نفس کی رکاوٹوں پر عبور حاصل کرنا ہے۔ باطنی اور ظاہری چیلنجز کے مگر مچھوں سے بچ کر نکلنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ جو کنارے لگ جائے وہ کامران ٹھہرے، بھلے وہ ڈوب کر جائے یا تیر کر مگر دو کناروں کے درمیان کی مسافت ہی وہ مرحلہ ہے جہاں بہت سے راز افشا ہوتے ہیں۔ انسان کو اپنی حقیقت کا علم ہوتا ہے ایک طرح سے یہ کڑی ریاضت کا نام ہے۔ ایک وسیع دنیا جہاں موت مختلف روپ دھارے جال بچھائے منتظر ہو، قدم قدم پر بھٹکنے کا اندیشہ ہو، نفس کی انگلی پکڑو تو عقل روٹھ جائے، عقل کی بات مانو تو نفس بغاوت پر اُتر آئے، ایسی صورت میں مُرشد کی موجودگی لازمی ہو جاتی ہے۔ سمندر میں ڈولفن مرشد کا روپ دھار لیتی ہے۔ وہ انسان کو اپنی ’’مَیں‘‘ کے خمار سے نکال کر اپنی پیروی پر مجبور کر دیتی ہے اور پھر اُسے کنارے پر چھوڑ کر نئے سفر پر روانہ ہو جاتی ہے۔ مرشد کا عمل ہی رہنمائی ہے وہ عمر بھر یہی کام کرتا ہے۔ نفس کے بے لگام گھوڑے کو مطیع کر کے مریدوں کو ذات کی نفی پر اُکساتا ہے۔ بھلا ہو تُرکی کے پالیسی سازوں کا جنھوں نے پہلی بار پولیس فورس کے لئے ڈولفن کا لفظ استعمال کیا اور نوجوانوں کی ڈولفن کی طرز پر تربیت کی۔ ورنہ دنیا میں ٹائیگر، فالکن، لیپرڈ جیسے شکاری جانوروں کے نام پر پولیس کے محکمہ جات کے نام رکھے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے پولیس خوف کی علامت بن چکی ہے جبکہ پولیس کامقصد رہنمائی تحفظ اور قانون کی عملداری کو یقینی بنا کر نظم و ضبط بحال رکھنا ہے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان ثقافتی اور اپنائیت کے رشتے بہت توانا ہیں اس لئے دونوں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے تُرکی جیسی ڈولفن فورس کا قیام عمل میں لائی۔ جس کے لئے تُرک نیشنل پولیس اور ترکی گورنمنٹ نے بھر پور مدد کی۔ پچھلے سال تربیت سے فارغ ہونے والا اسکواڈ لاہور میں اپنی کار کردگی ثابت کر چکا ہے جبکہ اِس بار پاس آؤٹ ہونے والے نوجوان پنجاب کے پانچ بڑے شہروں راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور بہاولپور میں خدمات سر انجام دیں گے۔ ترکی میں یہ فورس اعلیٰ ترین معیار قائم کر چکی ہے امید کی جاسکتی ہے کہ پنجاب میں بھی ویسے نتائج سامنے آئیں گے۔ پنجاب دہشت گردوں اور لٹیروں سے پاک ہوگا، لوگ بغیر کسی خوف و خطر زندگی کرنے کے قابل ہونگے اور پولیس ایک معتبر اور ہمدرد ادارے کے طور پر اپنا وقار بحال کرے گی۔پنجاب میں اِس مقصد کے لئے ہزاروں لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے تاہم خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ڈولفن پولیس کے نوجوانوں کے اوقات کار متعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اُن سے 24گھنٹے ڈیوٹی کا تقا ضاکرنا مناسب نہیں۔ ڈولفن فورس یقیناً بہترین خدمات سر انجام دے سکتی ہے مگر 24گھنٹے جاگ نہیں سکتی کیونکہ وہ انسانوں پر مشتمل ہے جو صرف 10 فیصد خلیوں کے استعمال کو ممکن بنا سکے ہیں۔ اس لئے وہ صرف 8یا 10گھنٹوں کے لئے ہی ڈولفن بن سکتے ہیں باقی وقت وہ اپنی ذات اور خاندان کے ساتھ ایک عام انسان کی طرح ہی گزار سکتے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کائنات میں انسان کو ابھی ترقی کے کئی مرحلے طے کرنے ہیں۔ اِس کے لئے اُسے اپنے باطن کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین