• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر اور بالخصوص اسلامی برادری میں اپنے دوستوں اور بہی خواہوں میں اضافے کی اشد ضرورت ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کسی قدر تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِس حساس موضوع پر غور و خوض کے لیے پاکستان کے تھنک ٹینک پائنا نے راؤنڈ ٹیبل مباحثے کا اہتمام کیا جس کے مہمانِ خصوصی جناب خالد عباس الاسدی تھے جو عرب دنیا میں گزشتہ سینتیس برسوں سے مقیم ہیں۔ پانچ سال انہوں نے مصر میں گزارے جسے عرب دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک اور دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بتیس برسوں سے وہ مدینہ منورہ کے مکین ہیں جو اسلامی تہذیب و ثقافت کا عظیم ترین مرکز ہے۔ ڈاکٹر خالد بیک وقت نہایت اچھے ڈاکٹر، بہت عمدہ نعتیہ شاعر، اقبالیات کے ماہر اور ’مدینہ کل اور آج‘ کے مصنف ہیں۔ وہ سیلف میڈ اور بڑے خوش نصیب انسان ہیں۔ میری اُن سے پہلی ملاقات آج سے اڑتیس برس پہلے قاہرہ میں ہوئی جب وہ قاہرہ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کر رہے تھے اور میں قاہرہ میں تعینات سفیر جناب ڈاکٹر ایس ایم قریشی کی دعوت پر مصر گیا تھا اور انہی کی رہائش پر قیام کیا تھا۔ ان دنوں عرب دنیا کی سب سے مقبول مغنیہ اُمِ کلثوم نے علامہ اقبال کا ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ کا عربی میں کیا گیا ترجمہ بڑے ذوق و شوق سے گایا تھا۔ اس فضا میں جناب خالد عباس نے شاعرِ مشرق اقبال پر کتاب تحریر فرمائی جو علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔
خوش قسمتی سے ان کے ہم جماعتوں میں ایک عرب لڑکی رندہ بن لادن تھی۔ بن لادن سعودی عرب کا بہت امیر اور بااثر خاندان تھا۔ رندہ کی وساطت سے خالد عباس کو ملازمت مل گئی اور اُن کا تقرر مدینہ منورہ میں ہوا جہاں مسجدِ نبویؐ کی توسیع کا کام بن لادن کمپنی کے ذمہ تھا۔ ڈاکٹر خالد سترہ سال مسجد ِنبویؐ کے ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان دنوں وہ ڈاکٹر حامد سلمان الاحمدی سے وابستہ ہیں اور اب تک ہزاروں مریضوں کا علاج کر چکے ہیں اور سعودیوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہیں۔ یوں تو وہ نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں پاک چین دوستی بھی شامل ہے جس کا چینی زبان میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے، مگر انہوں نے مدحتِ رسولؐ میں جو بلند مقام حاصل کیا وہ ان کی زندگی اور ہماری عقیدتوں کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ان کے نعت کے دو اشعار نے ایک روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
لفظ جب تک وضو نہیں کرتے
ہم تیری گفتگو نہیں کرتے
اُن کو ہرگز خدا نہیں ملتا
جو تیری جستجو نہیں کرتے
اُن کے ترنم میں ایک عجب گداز تھا اور حاضرین عشقِ رسولؐ کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے تھے۔ حاضرین کیا تھے، علم و ادب اور فہم و فراست کا ایک گلدستہ تھے۔ محترمہ بشریٰ رحمن، محترمہ دردانہ نجم، مجیب الرحمٰن شامی، امجد اسلام امجد، سجاد میر، یاسین وٹو، حفیظ اللہ نیازی، ممتاز طاہر، ڈاکٹر امان اللہ، رؤف طاہر، محمد مہدی، حبیب اکرم، جاوید سعید، فاروق چوہان، منشا قاضی، فاروق تسنیم، رحمت علی مجاہد، فاروق اعجاز قریشی اور عبدالمجید تشریف فرما تھے جبکہ گلوبل پیس تحریک کے روحِ رواں انجم ضیا لندن سے آئے تھے۔ جناب خالد نے سب کو اپنی پُرتاثیر گفتگو کے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔
میزبان کی حیثیت سے میں نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے سخت آزمائشوں میں پاکستان کے معاملات سلجھانے میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ بھٹو صاحب کے آخری دور میں جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت سیاسی جنگ جاری تھی، تو سعودی سفیر نے زبردست کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح جب پرویز مشرف جناب نوازشریف کو بھٹو صاحب کے انجام سے دوچار کرنے والے تھے، تو سعودی فرماں روا پاکستان کی مدد کو پہنچے اور شریف خاندان کی سات آٹھ سال میزبانی کے فرائض ادا کیے۔
مہمانِ خصوصی نے سعودی عرب کا ذکر اپنے ان اشعار سے شروع کیا:
اس زمیں کو سلام کرتے ہیں
تذکرہ صبح و شام کرتے ہیں
محترم جس زمیں نے ہم کو کیا
ہر دعا اسی کے نام کرتے ہیں
وہ کہہ رہے تھے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے رشتے دینی، مذہبی اور تاریخی ہیں، اس لیے ہم ایک جان دو قالب ہیں، البتہ سعودی معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے اور حکومت پر معیشت کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، چنانچہ تارکینِ وطن کے ہر فرد پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو پاکستانی مزدوروں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ تمام حالات کا جائزہ لے کر ہمیں ایک حقیقت پسندانہ حکمت ِعملی وضع کرنا ہوگی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت ِپاکستان نے تارکینِ وطن کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اوورسیز فاؤنڈیشن حکومت کا ادارہ ہے جو طویل مدت سے غیر فعال چلا آ رہا تھا۔ اب ا س ادارے میں ایک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی ہے جس میں سفارت خانوں کی سفارش پر وہ افراد شامل کیے گئے ہیں جو تارکینِ وطن میں اچھا اثرورسوخ اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کونسل کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک ہیں جن کا تعلق انگلستان سے ہے۔ میرے علاوہ تین افراد سعودی عرب کے سفارت خانے کی سفارش پر کونسل میں شامل کیے گئے ہیں۔ ہماری مدتِ کار تین سال ہو گی، چند ماہ کے اندر ہی خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سفارت خانے کا عملہ ہمارے ساتھ پورا پورا تعاون کر رہا ہے اور تارکینِ وطن کے مسائل تیزی سے حل ہونے لگے ہیں۔ پہلے کوئی شخص فوت ہو جاتا، تو اس کی میت کو پاکستان لانا ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔ اب ہم نے ایمبولینس سروس قائم کی ہے اور میت گھر تک پہنچائی جاتی ہے اور تمام اخراجات او پی ایف برداشت کرتی ہے۔ اسی طرح ملازمت سے فارغ ہو جانے والے تارکینِ وطن کے بچوں کے داخلے پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں کرائے جا رہے ہیں اور ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ حکومت سے مل کر ایسے انتظامات کیے جا رہے ہیں کہ تارکینِ وطن کے گھر اور جائیدادیں محفوظ رہیں اور وہ جو رقم لے کر اپنے وطن آئیں، اسے نفع بخش منصوبوں میں لگایا جا سکے جو ملکی معیشت کو فروغ دیتے رہیں۔
جناب مجیب الرحمٰن شامی نے بدگمانیوں کا سراغ لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس وقت سعودی عرب نے پانچ سال تک تیل مفت دینا شروع کر دیا، مگر ہمارے سیکرٹری خزانہ نے یہ راز فاش کر دیا جس نے مسائل پیدا کیے۔ ہمارے تعلقات میں رخنہ ہماری پارلیمنٹ کی اس قرارداد سے پڑا ہے جس میں سعودی عرب یمن جنگ میں ہم نے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا تھا جو دوریوں کا باعث بنا۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔
جناب رؤف طاہر نے ایک اور اہم سبب کی طرف اشارہ کیا کہ 2013ء میں ہمارا خزانہ بڑی حد تک خالی تھا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کیے۔ اس پر ہمارے بعض آزاد خیال دانش وروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کس کام کے لیے دیے ہیں۔ ان رویوں نے بدگمانیاں پیدا کی ہیں۔
جناب فاروق چوہان کے سوال کے جواب میں جناب خالد عباس نے بتایا کہ جو پاکستانی منشیات فروشی کے جرم میں جیل کے اندر ہیں، ان کی کوئی مدد نہیں کی جا سکتی، البتہ ہمارا سفارت خانہ اور اب پی او ایف ایڈوائزری کونسل ان پاکستانیوں کو پوری مدد پہنچا رہی ہے جو معمولی جھگڑوں کے باعث جیل میں پڑے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سعودی عرب ہمارا قریبی دوست ہے اور شرقِ وسطیٰ میں اسے ایک خاص حیثیت حاصل ہے، اس لیے ہمارے سفارت خانے کو حالات کے نئے تقاضے پورے کرنے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی۔ دونوں ملکوں کے مابین فوجی تعلقات بہتر کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاصی تعداد میں ایسے ڈاکٹرز اور تارکینِ وطن موجود ہیں جو فرماں رواؤں اور شہزادوں کے معالج اور معاون رہے ہیں۔ اسی طرح بعض دینی شخصیات بھی تعلقات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ان میں حرمین شریفین کے آئمہ کرائم سرفہرست ہیں۔

تازہ ترین