• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں غداری اور مذہب کو جواز بنا کر سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے۔ دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں پر شہریو ں کو حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے سرٹیفکیٹ لینا پڑتے ہیں۔ ذاتی دشمنیوں کی آڑ میں مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمسایہ ممالک سے دشمنی کو حب الوطنی سے تشریح کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں کسی کو غدار ٹھہرانا یا پھر مذہب کا نام استعمال کرکے ہدف تنقید بنانا کوئی نیا نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ بانی پاکستان کی بہن کو غدار قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ پوری ریاست نے مل کر قائداعظم محمد علی جناح کی بہن کو الیکشن ہرا دیا مگر کوئی قیامت نہیں آئی۔ آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ سویلین بالادستی اور جمہوریت کے متوالوں پر پہلا حملہ غداری کا کیا جاتا ہے،اگر غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں ناکامی ہو تو پھر مذہب کا نام استعمال کرکے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے جھوٹے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں کہ بندہ صفائی دیتے دیتے تھک جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنااللہ کے حوالے سے ایک متنازع بیان مخصوص حلقوں میں زیر بحث تھا۔ رانا ثنااللہ نے تنازعے کو طویل کرنے کے بجائے پنجاب اسمبلی میں طویل پریس کانفرنس کرکے اپنا نقطہ نظر واضح کردیا۔ ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ واضح ہے۔ نبی کریم ؐپر ہمارے ماں باپ قربان، آپؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو مکمل کردیا۔ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی ،رسول،پیغمبر نہیں آئے گا۔ یہ ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ اور پختہ یقین ہے۔ ختم نبوتؐ پر یقین کئے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے اپنی پریس کانفرنس اور وضاحتی بیان میں بھی اسی قسم کے جذبات اور اپنے نظریات کا اظہار کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ختم نبوت ؐپر ایمان لائے بغیر کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ مگر اس کے باوجو د مخصوص حلقوں کی طرف سے ان سے متنازع بات منسوب کی گئی۔ میری اطلاعات کے مطابق صحافیوں اور اشاعتی اداروں کو اکسایا گیا کہ اس معاملے کو مزید ہوا دی جائے۔ اکسانے والے وہی لوگ تھے جنہوںنے ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن و دیگر واقعات کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ رانا ثنااللہ کا جرم یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا داعی اور سویلین بالادستی کا شیدائی ہے۔ اپنے نظریات اور قانون کی حکمرانی پر پچھلے تیس سالوں سے ڈٹا ہوا ہے۔ مشرف آمریت کے دوران مسلم لیگ ن کے واحد رکن پنجاب اسمبلی تھے جنہوں نے بدترین تشدد برداشت کرنے کے باجود آمر حکومت کے خلاف بات کرنا بند نہیں کی۔ مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت آئی تو رانا ثنااللہ کو وزیر قانون بنا دیا گیا۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران نشیب و فراز آئے مگر اس شخص نے شریف خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری میں ایک فیصد بھی جھول نہیں آنے دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا پھر دھرنے،رانا ثنااللہ نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے لئے شیلڈ کا کردار ادا کیا۔ گزشتہ چند سالوں سے کوشش کی جاتی رہی کہ اس سیاستدان کو قتل سمیت سنگین جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جائے اور یوں جمہوریت کے ایک اور پروانے سے اپنا حساب برابر کردیا جائے۔ مگر ہر بار ناکامی ہوئی ۔ تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ جب سارے وار ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر مذہب کا بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ رانا ثنااللہ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ ان سیاستدانوں میں سے ہے جو نبی کریمؐ کا عاشق ہے۔ رانا ثنااللہ کے بڑوں نے برصغیر میں ختم نبوتؐ کے پرچم کی قیادت کی ہے۔ آج جمہوری نظریات پر ڈٹنے کا بدلہ یوں لیا جارہا ہے۔ غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں۔ عین ممکن ہےکہ رانا ثنااللہ سے بھی گفتگو کے دوران ایسی بات نکل گئی ہو ،جس کا دفاع کرنا ممکن نہ ہو ۔ مگر جب رانا ثنااللہ کی وضاحت سامنے آگئی تو معاملے کو بند کردینا چاہئےتھا۔ وہی قوتیں جو ماضی میں رانا ثنااللہ کے حوالے سے خبریں اور جعلی دستاویزات لے کر آتی ہیں ۔ آج اس معاملے کو ہوا دینے کے لئے صحافی برادری پر دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔ ایسے حقائق جب سامنے آتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے۔ دشمنی بھی اصولوں سے کی جاتی ہے۔ مگر یہاں تو کوئی اصول ہے ہی نہیں۔ ہماری قوم بڑی جذباتی ہے اور یونہی جذبات کے سمندر میں بہہ جاتی ہے۔ معاملے کی تحقیق کرنا تو ہم گناہ سمجھتے ہیں۔ کسی سے بھی ہمیں بدلہ لینا مقصود ہو یا پھر پرانا اسکور سیٹل کرنا ہوتو پھر ہم مذہب کو سامنے لاکر ایسا الزام لگاتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
جس پر الزام لگایا جارہا ہو ،وہ خود وضاحت کردے کہ میری بات کا غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے اور میرے نظریات یہ ہیں تو پھر مزید فتوؤں اور مہم بازی سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمارے اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خدارا اب یہ غداری اور مذہب کے نام پر بانٹے جانے والے سرٹیفکیٹ کا سلسلہ بند کریں۔ کسی شخص کو حب الوطنی اور نبی کریم ﷺ سے اپنی محبت ثابت کرنے کے لئے ریاست سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آج آپ کسی سیاستدان کو سبق سکھانے کیلئے ایسی مہم چلائیں گے تو کل یہ آگ آپ تک بھی پہنچ جائے گی۔ رانا ثنااللہ صرف ایک چہرہ ہے۔ جب آپ ایسا کام کرتے ہیں اور دباؤ کا سامنا کرنے والے تمام حقائق آکر بتادیتے ہیں تو پھر پوری ریاست کا چہرہ داغدار ہوجاتا ہے۔ مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ اب ہم اپنی پرانی روایات کو ترک کرکے دلیل کا جواب دلیل سے دیں۔

تازہ ترین