• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے این اے4 کا انتخاب اپنے اختتام کو پہنچا ۔ الیکشن خیر و خوبی سے گزر گیا۔ کوئی زیادہ ہنگامے کی اطلاع نہیں ملی۔ اکا دکا واقعات سے اب پاکستان میں مفر ممکن ہے ہی نہیں۔ انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے ایک بڑی فتح حاصل کی۔ جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اے این پی اور مسلم لیگ ن نے مل کر پی ٹی آئی جتنے ووٹ حاصل کئے۔ جس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن نے 2018 کے عام انتخابات میں ، کے پی جیسے اہم صوبے میں اپنی انتخابی ساکھ قائم رکھنی ہے تو، انہیں اے این پی جیسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کا ضمنی انتخاب میں اتنے ووٹ لینا یقیناََایک بہت بڑی کامیابی ہے۔انتخاب کا نتیجہ قریباََ وہی رہا جو 2013 میں تھا۔ نہ پی ٹی آئی کے ووٹ کم ہوئے نہ ہی مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں کوئی حیران کن اضافہ ہوا۔ حال ہی میںلاہور کے حلقہ این اے 120 میںبھی ضمنی انتخاب ہوا۔ ان دونوں حلقوں کے انتخاب میں کچھ چیزیں مشترک ہیں اور کچھ چیزیں بالکل متضاد۔
حلقہ این اے 120ہمیشہ سے مسلم لیگ کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ سے یہ سیٹ جیتتی رہی ہے۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد اگر ن لیگ یہ نشست ہار جاتی تو اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچتا۔ اسی طرح این اے4 تحریک انصاف کا گڑھ مانا جاتا ہے۔یہ سیٹ کبھی بھی مسلم لیگ ن نے نہیں جیتی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس حلقے میں ضمنی انتخاب کے حوالے سے بہت کام کیا ۔ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا ریکارڈ کافی خراب رہا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے سپورٹرز کو خدشہ تھا کہ اگر یہ سیٹ ہار گئے تو زخم کاری لگے گا۔ ساری ساکھ ختم ہو جائے گی۔لیکن انہوں نے اس حلقے میں محنت کی جس کا پھل انہیں فتح کی صورت میں ملا۔
حلقہ این اے 120میں بھی ضمنی انتخاب کے اعلان کے بعد اچانک ترقیاتی کام شروع ہو گئے۔ سڑکوں کی تعمیر ہوئی، گلیاں بنائی گئیں، کوڑا کرکٹ اٹھایا گیا، نوجوانوں سے نوکریوں کے وعدے کئے گئے۔ بجلی کی ترسیل کو یقینی بنایا گیا، گیس کے کنکشن بانٹے گئے۔ اسکولوں کا رنگ روغن کروایا گیا۔ صفائی ستھرائی کا دنوں میں خصوصی انتظام ہوا۔یہی حال این اے4 میں ہوا۔ صوبائی حکومت نے اپنے سارے ذرائع بروئے کار لائے اور نوجوانوں کو چند دنوں میں سینکڑوں نوکریاں دی گئیں۔ وفاقی حکومت کے نمائندے امیر مقام نے وفاق سے بجلی اور گیس کے کنکشن گھر گھر میں لگوائے۔ اس حلقے میں شکست سے امیر مقام کے2018 میں وزیر اعلی بننے کے خواب کو بھی ٹھیس پہنچی۔ انہیں جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوسکا۔
دونوں ضمنی انتخابات میں امن و امان کی صورت حال مجموعی طورپر پر امن رہی۔ امن و امان کی ذمہ داری فوج کے سپرد تھی جس کی بنا پر مجموعی صورت حال اچھی رہی۔ قوم کسی بڑے حادثے اور سانحے سے بچی رہی۔این اے 4 میں ایک پولیس والے کی خبر البتہ اسکرینوں کی زینت بنتی رہی جس کو درجنوں ووٹ ڈالتے ہوئے پکڑا گیا۔ لیکن یہ کوئی مجموعی کیفیت نہیں تھی۔ایسے ایک آدھ واقعہ سے انتخاب کی شفافیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
دونوں ضمنی انتخابات میں امیدواروں نے دل کھول کر رقم خرچ کی۔ الیکشن کمیشن کے معین کردہ حدود کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔
جن حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوتا ہے ان کے عوام کی سنی جاتی ہے۔ ان کے سارے رکے کام دنوں میں ہو جاتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی اچانک عزت شروع ہو جاتی ہے۔اس لحاظ سے قوم کو دعا کرنی چاہیے کہ اس ملک میں عام انتخابات کے بجائے صرف ضمنی انتخابات ہونے
چاہئیں۔ عوام کے مسائل کے حل ہونے کا شاید اب یہ واحد طریقہ بچا ہے۔
دونوں ضمنی انتخابات میں میڈیا کے ساتھ نہایت ناروا سلوک کیا گیا۔ ہمیشہ سے میڈیا کے نمائندے پولنگ کی ابتداسے پولنگ اسٹیشن کے اندر ہوتے تھے۔ کیمرے ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ پہلے ووٹ سے لیکر آخری ووٹ تک سب کچھ ان کے سامنے ہوتا تھا۔ ان دونوں انتخابات میں میڈیا کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ ہر دو ضمنی انتخابات میں میڈیا کے کسی نمائندے کو باوجود احتجاج کے پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ شہاب الدین جو ایک بہت محترم اور محنتی رپورٹر ہیں اور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ہیں انہوں نے میڈیا نمائندگان کی جانب سے الیکشن کمیشن سے بھرپور احتجاج بھی کیا لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی۔
دونوں انتخابات میں بنیادی موضوع بحث ووٹنگ کی رفتار رہی۔اس بحث سے قطع نظر کہ کون جیتا اور کون ہارا ان دو ضمنی انتخابات میں بنیادی فرق ووٹنگ کی رفتار کا تھا۔ جہاں این اے 120 میں ووٹ ڈالنے کی رفتار کو مختلف حیلے بہانوں سے سست کیا گیا وہاں این اے4 میں یہ رفتار حیران کن حد تک تیز رفتار تھی۔ اس ضمن میں ووٹنگ ختم ہونے کے بعد فافن کی ایک ضمنی رپورٹ بھی سامنے آئی جس نے منتخب کردہ قریباََ دس پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ کی رفتار کو حیران کن حد تک برق رفتار پایا۔نتائج بھی جس برق رفتاری سے دیئے گئے ان کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ قریباََسات بجے تک 150 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جو لوگ اور ادارے الیکشن کے عمل کی شفافیت پر نگاہ رکھتے ہیں ان کو 2018 میں ووٹنگ کی رفتار اور میڈیا کی پولنگ اسٹیشن تک رسائی پر خاص نظر رکھنی ہوگی۔
یہ سب تو مشترک باتیں تھیں لیکن اس کے باوجود حلقہ این اے 120 اور حلقہ این اے4 کے انتخاب میں زمیں آسمان کا فرق تھا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ این اے 4 میںنہ الیکشن سے دو دن پہلے نامعلوم افراد کے انتخابی دفاتر سجائے گئے،نہ اتنے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے کہ ووٹر کو اپنے امیدوار کی شناخت کا ہی مسئلہ پڑ جائے، نہ ملی لیگ اور لبیک پارٹی کے حوالے سے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کیا گیا، نہ مبینہ طور پر غائب کئے گئے،نہ خواتین ووٹرز کی ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ اسٹیشن تک دوڑیں لگوائی گئیں، نہ پولنگ کا عمل اتنا سست ہوا کہ ہزاروں ووٹر پولنگ کا وقت ختم ہونے کے باوجود بھی ووٹ دینے سے محروم رہ گئے، نہ الیکشن کمیشن سے پولنگ کا وقت بڑھانے کی درخواست کرنے کی ضرورت پڑی ، نہ الیکشن کمیشن کو انکار کرنا پڑا، نہ سیکورٹی والوں نے ہر شخص کا گھرانہ نمبر، شمارہ نمبر اور فارم ب طلب کیا، نہ چار چار منٹ میں ایک ووٹ پڑا۔ نہ ٹریفک میں رخنے ڈالنے والے کسی کو نظر آئے، نہ کسی نے دھاندلی کی شکایت کی نہ ہی امن عامہ میں کوئی نقص پیدا ہوا۔
کہنے کی بات صرف اتنی ہے اس ملک میں عوام کے پاس اپنے حق کے اظہار کے لئے ایک ہی دن ہوتا ہے اگر وہ دن اور اسکے نتائج بھی مشکوک ہو گئے تو وہ وقت دور نہیں کہ الیکشن میں ٹرن آئوٹ صفر بھی ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین