• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب عدالت عظمیٰ نے پانامہ کیس میں اپنے 28 جولائی کے فیصلے میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم اور ممبر قومی اسمبلی نااہل قرار دیا تو ان کے سیاسی اور دوسرے مخالفین نے سوچا کہ اب ان کا سیاست میں رول ختم ہوگیا ہے اور جوں جوں احتساب عدالت میں ان کے خلاف نیب کے ریفرنس چلیں گے اور فیصلے ہوں گے تو یہ سیاست میں قصہ پارینہ بن جائیں گے۔ عدالتی فیصلے کے تین ماہ بعد بھی ملکی سیاست سابق وزیراعظم کے گرد ہی گھوم رہی ہے اور لگ یوں رہا ہے کہ آئندہ بھی وہی اس کے محور رہیں گے چاہے وہ آزاد ہوں یا جیل میںکیونکہ آج بھی وہی پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں اور پانامہ کے ہنگامے نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ انہیں فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ آج بھی بات ہو رہی ہے تو یہی ہے کہ کس طرح مختلف طریقوں سے نوازشریف کو ’’خاموش‘‘ رہنے پر قائل کیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور کچھ دوسرے نون لیگیوں کی بھی کوشش ہے کہ وقتی طور پر سابق وزیراعظم ایک طرف ہو جائیں تاکہ موجودہ ’’مشکل‘‘ وقت گزر جائے اور مارچ میں سینیٹ کے الیکشن اور 2018ء میں وقت پر عام انتخابات ہو جائیںجن میں ان کی جماعت کی پوزیشن بہت بہتر ہونے کی امید ہے۔ یہ کہنا کہ شہبازشریف یا کچھ دوسرے نون لیگی نوازشریف کیلئے ایسے حالات پیدا کر دیں گے جن میں وہ ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے صحیح نہیں ہے کیونکہ سابق وزیراعظم نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی دبائو میں نہیں آتے اگر انہوں نے پریشر میں آنا ہی ہوتا تو 12 اکتوبر 1999ء کو جب تین جنرلوں نے پستول ٹیبل پر رکھ کر ان سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی تھی وہ موت کے خوف سے فوراً ان کی بات مان جاتے مگر ایسا نہیں ہوا تھا باوجود اس کے کہ اس افراتفری کے عالم میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ نوازشریف کو قتل کر دیا جاتا۔ ہاں البتہ اگر ٹھوس دلائل سے نوازشریف کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ دوسرے کی بات ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر آج انہیں کوئی اس بات پر قائل کر لے کہ 28 جولائی کے بعد پاکستان ہر لحاظ سے بہتر ہے تو وہ یقیناً ایک طرف ہو جائیں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام، غیر یقینی اور کنفیوژن بہت بڑھ گیا ہے اور قومی ترقی جو ان کے دور میں عروج پر تھی بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ تمام سیاسی اور دوسرے سازشی عناصر جنہوں نے نوازشریف کو ہٹانے کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا بھی یہی کہتے ہیں کہ ملک کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے اور چاہے کوئی جتنے جتن کرتا رہے اور اپنی انرجی ضائع کرتا رہے کہ نوازشریف کو سیاست نہیں کرنے دینی اور انہیں اس سے باہر رکھنا ہے وہ ایک بہت بڑی سیاسی حقیقت ہیں جس کو جھٹلانا سوائے خود فریبی کے کچھ نہیں۔ اگر وقتی طور پر یہ عناصر ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی سیاسی مستقبل سابق وزیراعظم کا ہی ہے نہ کہ ان حضرات کا۔ 28 جولائی کے بعد سیاست میں قومی بیانیہ نوازشریف ہی دے رہے ہیں اور وہی سیاسی محور ہیں چاہے بات یہ ہو کہ وہ پاکستان آئیں گے یا نہیں، احتساب عدالت میں پیش ہوں گے یا نہیں یا احتساب عدالت میں پیش ہوئے ہیں، شہبازشریف اپنے بھائی کے بارے میں کیا کوششیں کر رہے ہیں، نون لیگ کے کیا حالات ہیں، نوازشریف ہارڈ لائن لیں گے یا سافٹ لائن، اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ان کا کیا رویہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں ووٹ یا تو پروبھٹو یا اینٹی بھٹو ہوتا تھا مگر اب ووٹ پرو نوازشریف یا اینٹی نوازشریف ہے۔ اسی لئے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا ہدف بھی نوازشریف ہی ہیں جیسے پہلے ذوالفقار علی بھٹو ہوا کرتے تھے۔ گزشتہ چار سال سے زائد عرصے کے دوران عمران خان اپنی حرکات کی وجہ سے سیاست پر چھائے رہے ہیں اگرچہ ان کے بہت سے بیانات اور ایکشنز نے پاکستان کی سیاست میں بہت تلخی اور گندگی پیدا کر دی ہے مگر بحث و مباحثہ ان کے قول و فعل پر ہی ہوتا رہا ہے۔ 28 جولائی کے بعد ایسا نہیں ہے اب بات نوازشریف کی ہوتی ہے۔ عمران خان کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے سیاسی نقصان ہی ہوا ہے فائدہ کچھ نہیں ملا۔ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاسی اسٹینڈنگ بہت بہتر ہو چکی ہوتی تو ’’فیصلہ ساز‘‘ ان کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے مگر وہ اب بھی نون لیگ کی طرف ہی مائل ہیں صرف اس وجہ سے کہ یہی جماعت سب سے زیادہ مقبول ہے اور انہیں معلوم ہے کہ یہی اگلے انتخابات لے اڑے گی۔ ان حالات میں عمران خان ان عناصر کی قطعی ترجیح نہیں ہیں ان سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور کام تھا نوازشریف کو ’’بدنام‘‘ کرنا۔آئندہ بھی ان کا کام یہی رہے گا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آصف زرداری بھی ’’ان ‘‘کی چوائس نہیں ہیں کیونکہ آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی بھی 2013ء سے کوئی بہت زیادہ بہتر ہونے کا امکان نہیں ہے ۔آج بھی اس کی حالت پنجاب میں بہت ہی بری ہے۔ جب عمران خان اور آصف زرداری عوامی سطح پر اس قابل ہی نہیں کہ وہ قومی انتخابی معرکے میں بہت اچھی پوزیشن حاصل کرسکیں تو پھر یقیناً نظر نون لیگ کی طرف ہی جاتی ہے جو کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ اب بھی یہی جماعت آئندہ انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے مگر مسئلہ صرف نوازشریف سے ہے اور کوشش یہی ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح انہیں اس جماعت سے الگ کیا جائے اور شہبازشریف اس کی باگ ڈور سنبھال لیں۔
نہ صرف شہبازشریف اور ہر نون لیگی بلکہ ہر کسی کو یقین ہے کہ یہ جماعت نوازشریف کے دم سے ہی بہت بڑی سیاسی قوت ہے۔ نون لیگ کے جو حضرات سابق وزیراعظم کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے اور وقتی طور پر سائیڈ لائن ہونے کا کہہ رہے ہیں کو معلوم ہے کہ ووٹر نے وہی کچھ کرنا ہے جو نوازشریف کہیں گے۔ وہ سابق وزیراعظم کو بطور ’’ووٹ گیٹر‘‘ کے تو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ وہ بھی سیاست میں مدافعانہ انداز میں سرگرم رہیں۔ لیکن فیصلہ سابق وزیراعظم نے کرنا ہے اور جب وہ فیصلہ کر لیں گے تو شہبازشریف اور دوسرے تمام رہنمائوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ نون لیگ کے اندر سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ کوئی بڑا گروپ سامنے لایا جائے جو نوازشریف کی پالیسی یہ کہہ کر کہ اداروں کے ساتھ ٹکرائو نہیں ہونا چاہئے بولے مگر اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ عرصہ سے سن رہے ہیں کہ 40 ایم اینزکا ایک گروپ ہے، 70 ایم این ایز کا ایک گروپ ہے اور کئی درجن ایم پی ایز کا ایک گروپ ہے جو نوازشریف کی پالیسی کے خلاف بولنے والا ہے مگر ابھی تک کوئی ایسا گروہ نظر نہیں آیا اگر کوئی اکا دکا ایم این اے یا ایم پی اے سابق وزیراعظم کی حکمت عملی سے کچھ اختلاف بھی کرتا ہے تو وہ بھی یہ ضرور کہتا ہے کہ اس کا لیڈر نوازشریف ہی ہے کیونکہ اسے بھی معلوم ہے کہ سابق وزیراعظم کی حمایت کے بغیر نہ تو اسے پارٹی ٹکٹ ملے گا اور نہ ہی وہ آئندہ انتخابات میں جیت سکے گا۔ جس دن نوازشریف واپس پاکستان آ جائیں گے اسی دن ہی یہ تمام ’’اختلافات‘‘ جن کو ہوا دی جا رہی ہے دم توڑ جائیں گے۔ یہ کہنا کہ نوازشریف پاکستان سے ہمیشہ کیلئے باہر رہیں گے احمقانہ بات ہے کیونکہ ان کی سیاست پاکستان میں ہے نہ کہ برطانیہ یا کسی دوسرے ملک میں۔

تازہ ترین