• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

399 قبل مسیح کی ایک صبح یونانی سپریم کورٹ کی 500 ارکان پر مشتمل جیوری سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔ انکے سامنے سقراط نامی سماجی و اخلاقی ناقد اور فلسفی کا کیس زیر سماعت تھا۔ ملزم پر الزام تھا کہ وہ اپنے خیالات سے نوجوانوں کے ذہن آلودہ کرتا ہے اور ریاستی مذہبی عقائد کے مطابق دیوتائوں کو نہیں مانتا۔ 280 ارکان نے قرار دیا کہ سقراط مندرجہ بالا جرائم کا مرتکب ہوا ہے جبکہ 220 ارکان نے اسکے حق میں فیصلہ دیا۔ سقراط کے جرائم کو اسقدر سنگین گردانا گیا کہ اسکو زہر کا پیالہ پلا کر قتل کر دیا گیا۔ یونانی سپریم کورٹ کو ہیلیایا (Heliaia) کے نام سے پکارا جاتا تھا، جسکا مطلب تھا کھلے آسمان کے نیچے لگنے والی عدالت۔ یعنی یونان کی سپریم کورٹ جوایک ایسا فیصلہ دینے کی مرتکب ہوئی کہ جسکو تاریخ نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، عوامی نظروں سے اوجھل کسی بند کمرے میں خفیہ کارروائی کے ذریعے فیصلے نہیں دیتی تھی بلکہ عوام کے منتخب اراکین جیوری کے ذریعے کھلے آسمان تلے عوام کی دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کی نگرانی میں فیصلے دیتی تھی۔ کیا ان ساری خوبیوں کے باوجود یونانی سپریم کورٹ اچھا فیصلہ دے سکی؟ جواب یقیناََ نہیں میں ہے۔ لیکن اس فیصلے کی اچھی بات یہ تھی کہ جو فیصلہ اس نے دیا وہ دن کی روشنی میں سب کے سامنے دیا نہ کہ رات کی تاریکی میں دروازوں کو تالے لگا کر۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط کے ٹرائل کو عوامی اور تاریخی چھان پھٹک کا موقع ملا اور بالآخر تاریخ نے اسے مسترد کر دیا۔ انصاف اور اوپن ٹرائل کے تصورات لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے شواہد جا بجا بکھرے ہوئے ہیں کہ جنگلوں اور غاروں کے زمانے میں بھی انصاف یا عدل کا فریضہ عوامی سطح پر اور کھلے آسمان کے نیچے انجام پاتا رہا ہے نہ کہ چھپ چھپا کر رات کے اندھیروں میں۔ یورپ اور مشرقِ وسطی اور وسطی ایشیا، جہاں اوپن ٹرائل کا اصول رائج تھا، کو چھوڑیں ہماری اپنی قدیم ترین روایات میں بھی جرگہ یا پنچایت کی کارروائی کھلے عام سب کے سامنے انجام پاتی رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو نظام عدل رائج ہے اسکو انگریزوں نے رائج کیا تھا جو رومن، یونانی اور برطانوی قانونی روایات کا مجموعہ ہے جسے کامن لا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظام میں بھی اوپن ٹرائل ایک بنیادی خصوصیت ہے، اسی لئے پاکستان بھر کی تمام عدالتوں کے دروازے صبح سویرے کھول دئیے جاتے ہیں۔ خطہ ہائے عرب کے روایتی قبائلی انصاف کی جن خصوصیات کو بعد میں مذہبی سند ملی، اوپن ٹرائل کی خصوصیت ان میں شامل تھی جو اب شرعی قانون کی شکل میں ہمارے نظام عدل کا حصہ ہے۔
انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے کرہ ارض پر پھیلے ہوئے تمام انسانوں نے جو پہلی بین الاقوامی حکومت قائم کی ہے، اسے اقوامِ متحدہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر، کنونشن، معاہدے اور رہنما اصول نسلِ انسانی کے لاکھوں سال کے معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے اجتماعی شعور کا حاصل ہیں۔ اتنے ہی عرصے میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی غلامی کے زخم بھرنے کیلئے اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق کا جو آفاقی ڈکلیئریشن پیش کیا ہے، اس کے آرٹیکل 10 کی شکل میں ملزم کو اوپن ٹرائل کا حق دیا گیا ہے۔ اسکے الفاظ یہ ہیں "ہر کسی کو ایک آزاد اور غیر جانبدار عدالت کےسامنے مبنی بر انصاف اور عوامی شنوائی کابرابر کا حق حاصل ہے"۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے اس ڈکلیئریشن کے حق میں ووٹ دیا تھا اسلئے پاکستان اس پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی عدالتی تاریخ اتنی قابلِ فخر نہیں رہی اس لئے آئین پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے خصوصی طور پر آرٹیکل 10A کی شکل میں ہر ملزم کو فیئر ٹرائل اور شفاف کارروائی (due process) کا بنیادی حق دیا گیا اور اوپن ٹرائل، شفاف کارروائی کا بنیادی رکن تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اوپن ٹرائل کے حق سے محروم کرنے کی چند ایک استثنیات آج بھی رائج ہیں, جیسا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی اور ملٹری کورٹ کے فیصلے لیکن ایسے ٹرائلز کو ہمیشہ ساکھ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والے بہت سے ناقدین ان ٹرائلز کوبھی اوپن بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ (Mills v. the United Kingdom 2001) کیس میں یورپی عدالت برائےانسانی حقوق تو فیصلہ بھی دے چکی ہے کہ کورٹ مارشل کی کارروائی پر بھی یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے جو ہر ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے، جسمیں عوامی سماعت کو فیئر ٹرائل کا ایک بنیادی جزو بتایا گیا ہے۔ مقدمات کی عوامی سماعت کا اصول آج کے جدید دور میں اسقدر رائج ہو چکا ہے کہ اسکے بغیر کسی ٹرائل کو فیئر ٹرائل نہیں کہا جا سکتا۔
اوپن ٹرائل کے حق میں اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اسلئے پیش آئی چند روز پہلے اسلام آبادہائیکورٹ کے معزز جج جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر ایک آئینی درخواست نظر سے گزری جس میں وہ اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کارروائی کے اوپن ٹرائل کی استدعا کر رہے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل انکی یہ درخواست پہلے ہی رد کر چکی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے اندر احتساب کا شفاف اور قابلِ بھروسہ نظام قائم کرنے کیلئے آواز اٹھاتا رہتا ہوں۔ وجہ اسکی بڑی سادہ ہے کہ ریاست کا وہ ستون جسکا بنیادی فریضہ ہی ریاستی معاملات میں دوسروں کے احتساب کو یقینی بنانا ہے، اسکا اندرونی احتساب کا نظام نہ صرف اس کم از کم معیار پر پورا اترنا چاہئے جس پر وہ دوسروں کو پرکھتا ہے بلکہ اسکا معیار اور شفافیت تو مثالی ہونا چاہئے۔ سپریم جوڈیشل کونسل جو 1973 میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کے تحت وجود میں آئی، آج تک غیر فعال رہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب اس اہم آئینی فورم نے کام شروع کر دیا ہے۔ لیکن اسکی کارروائی تک عوام، وکلا اور میڈیا کی رسائی پر پابندی کی وجہ سے کئی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل چند دیگر معزز جج صاحبان کے علاوہ جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف شکایات پر بھی کارروائی کر رہی ہے لیکن انکی یہ استدعا کہ انکے خلاف کارروائی ضرور کی جائے لیکن انہیں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے، بڑی جائز معلوم ہوتی ہے۔ کارروائی کس ضابطے کے تحت ہو رہی ہے؟ ان پر الزامات کیا ہیں؟ انکو اپنے خلاف الزامات کی صفائی کا کتنا موقع دیا گیا ہے؟ کیا ضابطے کے تحفظات (procedural safeguards) کا خیال رکھا جا رہا ہے؟ کیا انکو اپیل کا حق دیا جائے گا؟ ان سب سوالوں کے جواب جاننے کا حق نہ صرف ٹرائل کئے جانے والے جج کو حاصل ہے بلکہ اس سارے عمل کا مشاہدہ کرنے، اسکا تجزیہ کرنے اور اسکا تنقیدی جائزہ لینے کا حق وکلا تنظیموں، میڈیا اور میڈیا کے ذریعے عوام، سب کو حاصل ہے۔ بلاشبہ سپریم جوڈیشل کونسل اندرونی احتساب کے تحت پہلی دفعہ فیصلے صادر کر کے تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ غیر ضروری پابندیوں کے باعث کہیں یہ فیصلے متنازع نہ بن جائیں۔ اگر پابندیاں برقرار رہتی ہیں اور کارروائی خفیہ رکھی جاتی ہے تو ہر دو صورتوں میں تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ جج صاحبان کو کلین چٹ دے دیتی ہے تو بھی انگلیاں اٹھیں گی کہ اندرونی احتساب کا نظام ناقابلِ عمل ہے اور اگر سزا دیتی ہے تو بھی سوال اٹھ سکتے ہیں کہ فیئر ٹرائل کے بغیر کسی اور وجہ سے یا کسی دبائو کے نتیجے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے جیسے خیر اندیش جو عدلیہ کو ایک مضبوط ادارہ دیکھنا چاہتے ہیں، یہی التجا کر سکتے ہیں کہ جو بھی طریقہ اپنایا جائے اور جو بھی فیصلے دیئے جائیں، اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ ہماری عدالتی تاریخ میں روشن ابواب کا اضافہ کریں نہ کہ تنازعوں کی نذرہو جائیں۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر فیصلے متنازع ہو گئے تو پھر پارلیمان کے ذریعے احتساب یا امپیچمنٹ کے مطالبے زور پکڑنا شروع ہو جائیں گے۔

تازہ ترین