• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت سیاست کا بحران اور قیادت کا فقدان ہے۔ بین الاقوامی دبائو کا سامنا بھی ہے اور اندرونی خلفشار کا خطرہ بھی ہے، نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاچکا ہے، بلاول ابھی سیاست سیکھ رہے ہیں اور عمران خان اہلی و نااہلی کی درمیانی صورتحال میں مقدمے بھگت رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ اتنے بڑے سیاسی خلا میں کسی کی نظر مجھ پر کیوں نہیں جاتی مجھے ملک و قوم کی تقدیر سنوارنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ مجھ میں کیا کمی ہے آخر میں کیوں طاقتور حکمران نہیں ہوسکتا؟
میں شریف ہوں، وفادار ہوں، زندگی بھر مخلص سیاسی کارکن رہا ہوں، مڈل کلاس کا نمائندہ ہوں، میرا کوئی مالی اسکینڈل نہیں، پاناما کے خطرات سے آگاہ کرنے والا میں پہلا سیاستدان ہوں، میں کرپشن سے دلی نفرت کرتا ہوں، ساری زندگی محنت اور حلال کی کمائی سے بچوں کا پیٹ پالا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں پریکٹیکل آدمی ہوں میں مٹھائی کی دکان پر بیٹھتا رہا ہوں، عام آدمی کو جتنا قریب سے میں جانتا ہوں پاکستان کا کوئی سیاستدان نہیں جانتا۔
میں کراچی کی محب وطن اردو بولنے والی آبادی کا نمائندہ ہوں ، کراچی کی سیاسی صورتحال ابتر ہے، الطاف کی ایم کیو ایم ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے مگر ابھی کچھ پتہ نہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اردو بولنے والوں کی محرومیوں کے مداوا کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مجھے آگے لایا جایا، مجھے اختیارات دئیے جائے تو کراچی کے معاملات میں بہتری آئے گی اور اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ کراچی کی غالب اکثریت دوبارہ سے پاکستان کے بارے میں اسی طرح سوچنے لگے جس طرح ان کی پچھلی نسل قیام پاکستان کے وقت سوچتی تھی۔ آپ مجھے طاقتور کریں گے تو دراصل اردو بولنے والی مڈل کلاس کو اقتدار دیں گے۔
میری طرف نظر تو دوڑائیں میں گریس فل ہوں۔ بیرون ملک کے دوروں پر کم ہی جاتا ہوں مگر جب سوٹ پہن کریا شیروانی اور پاجاما پہن کر میں چل رہا ہوتا ہوں تو ہر کسی کی آنکھوں میں پاکستان کے لئے احترام نظر آتا ہے۔ پاجاما پہنوں یا سوٹ مجھےCarryکرنا آتا ہے ادب آداب اور رموز مملکت کے تکلفات بھی میرے سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ کاش !پاکستان کی قیادت اور اختیار میرے ہاتھوں میں آجائے تو میں ملک کو بام عروج تک پہنچادوں!!
بھارت کو دیکھیں وہاں تجربے کو اہمیت دی جاتی ہے مودی اور میرا مقابلہ کرلیں میں اس سے کہیں زیادہ پڑھا لکھا ہوں میں نے درس نظامی کے ساتھ ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے اگر وزیر اعظم بننے سے پہلے مودی کے پاس گجرات کی وزارت اعلیٰ کا تجربہ تھا تو میرے پاس بھی سندھ کی گورنری کی مہارت موجود ہے۔ اس کے باپ کا چائے کا ہوٹل تھا ہماری تو بہت بڑی مٹھائی کی دکان تھی، ڈیل ڈول میں بھی اس کے مقابلے کا ہوں۔ مودی کو اس کی قوم نے موقع دیا، میں اس سے کہیں بہتر سیاستدان ہوں قوم مجھے بھی موقع دے!!!
دنیا بھر میں لوگ مدبر شخصیات کو عہدے دیتے ہیں جرمن صدر انجیلا مرکل کو دیکھیں وہ میری طرح ہی کی شخصیت ہیں نہ وہ شوخ اور چنچل ہیں نہ پتلی اور نہ فیشن ایبل۔ پاکستان میںشروع ہی سے دستور رہا ہے کہ یہاں تیز طرار، چالاک اور اچھی شکل و صورت والوں کو ہی طاقت اور اختیار دیا جاتا ہے حالانکہ دنیا میں سنجیدہ فکر، متین، تجربہ کار اور متحمل مزاج لوگوں کو سیاست میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے جبکہ یہاں جذباتی و ناتجربہ کار اور شعلہ مزاج لوگ سیاست پر راج کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک کی کوئی واضح سمت مقرر نہیں ہوپائی۔ ایک بار مجھے موقع دیں تو آپ دیکھیں گے کہ کرشماتی شخصیات رکھنے والے سیاستدانوں کے مقابلے میں میری کارکردگی کہیں بہتر نظر آئے گی۔
آئینی طور پر تو میں اب بھی سب سے بڑا ہوں مگر نہ مجھے سیاسی رسوخ حاصل ہے اور نہ اقتدار کی طاقت۔ اس لئے میں روزمرہ کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش ہی نہیں کرتا بس اپنے آئینی فرائض تک ہی محدود رہتا ہوں۔ آپ کے سامنے دل کے دکھڑے کیا بولوں؟ مگر کیا کروں سچ منہ سے نکل ہی جاتا ہے، ملک کے سب سے بڑے صوبے میں میرے دورے بہت کم رکھے جاتے ہیں حالانکہ مجھے اس صوبے سے بڑی محبت ہے اور اگر مجھے روکا نہ جاتا تو اب تک پنجاب میں میرے پیروکاروں اور مداحوں کی بہت بڑی تعداد ہوچکی ہوتی۔ آج کل ایک نئی فلم بنی ہے’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ حالانکہ میرے حوالے سے تو فلم بننی چاہئے’’پنجاب جانے نہیں دیا جاتا‘‘۔ آپ خود ہی انصاف کریں کیا میرے ساتھ یہ سلوک مناسب ہے؟
پاکستان کے مقتدر حلقوں میں بھی میری عزت ہے کہا جاتا ہے کہ صدر لغاری کو بھی ایسا ہی احترام دیا جاتا تھا جتنا مجھے دیا جاتا ہے اس لئے اگر مجھے طاقت و اختیار و الا عہدہ مل جائے تو پاکستان فوری طور پر اندرونی استحکام حاصل کرلے گا۔
میں پاکستان کی مڈل کلاس آواز کو پہچانتا اور جانتا ہوں وہ چاہتی ہے کہ وراثتی سیاست ختم ہو، اقتدار میں دولت کا کھیل نہ کھیلا جائے۔میں مڈل کلاس کی امنگوں پر بالکل پورا اترتا ہوں نہ میرے والد سیاستدان تھے نہ میرے بچے سیاستدان ہیں، میں اقتدار میں دولت سے نہیں اپنی محنت سے آیا ہوں اس لئے پاکستان کی مڈل کلاس کو چاہئے کہ مجھے اپنا لیڈر مان لے اور مجھے طاقت اور اختیار دلوانے میں ان کی تمام خواہشات کوپورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ ملک کو ایک بار سیدھی پٹری پر چڑھا دوں گا، ایک بار ریل اس پٹری پر چل پڑی تو پھر پاکستان جلد یا بدیر اپنی منزل ضرور حاصل کرلے گا۔
میں قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ باقی سیاستدانوں کی طرح میں اقتدار سے چمٹا نہیں رہوں گا صرف نوے روز کے اندر ملک کی سمت سیدھی کرکے رخصت لے لوں گا، ضیاء الحق کی طرح نوے دن میں توسیع کی کوئی کوشش نہیں کروں گا۔ قوم ایک بار مجھ پر اعتبار تو کرکے دیکھے میں بیڑہ پار کردوں گا میری صدری میں ملک کے ہر مسئلے کا حل پہلے سے موجود ہے، آخر ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کروانے ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی مجھے دیں ایسے انتخابات کروائوں گا کہ1970کے انتخابات کی یاد بھول جائے گی۔
آخر میں یہ عرض بھی کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی میں میری اکثر خواہشیں پوری ہوچکیں، پروٹوکول، عہدے، سلامیاں، بیرون ملک دورے، صلاح مشورے اور رنگ برنگے کھانوں پر مشتمل عشائیےسب کچھ دیکھ چکا۔ اب میں ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک بار مجھے اقتدار اور اختیار مل جائے تو میں ممنون پہلے ہی ہوں مزید ممنون ہوں گا!!

تازہ ترین