• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توکل، صبر اور حوصلہ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان بنیادی طور پر کمزور واقع ہوا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ خالق حقیقی کا فرمان اور قرآن حکیم کا فیصلہ ہے۔ توکل اور صبر کے باوجودکبھی کبھی صبر اور برداشت کے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور آنکھوں سے سمندر بہنے لگتا ہے۔ میں نے بارہا دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ بعض مواقع پر آنکھوں سے بارش برسنے کی وجہ توکل، صبر اور حوصلے میں کمی کے سبب نہیں ہوتی بلکہ وہ آنسو انسان کو یہ یاد دلانے کے لئے بہاتے ہیں کہ تم درحقیقت ایک کمزور مخلوق ہو، ایک کمزور اور حقیر شےہو۔ یہ ہرگز جسمانی کمزوری یاوسائل کی کمی کے سبب نہیں ہوتا کیونکہ میں نے گاما پہلوان جیسے طاقتور اور پہاڑ کی مانند مضبوط انسانوں کوبھی بلبلاتے اور روتے دیکھا ہے اور دولت کے انباروں پر بیٹھے انسانوں کو بھی آنسوئوں کی برسات میں بھیگتے دیکھا ہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان پر راز کھلتا ہے کہ حد درجہ عروج اور اقتدار، دولت اور جسمانی قوت کے باوجود بظاہر بہادری کا مجسمہ ہونے کے انسان بنیادی طور پر کمزورواقع ہواہے اوروہ کمزور لمحوں میں آنسو بہا کر اس حقیقت کا اعتراف کرتاہے۔ غربت کے آنسو چند لمحوں کے آنسو ہوتے ہیں وہ روح سے نہیں بلکہ آنکھوں سے نکلتے اور چہرے پر بہتے ہیں لیکن جب نہایت رئیس انسان، بڑے بڑے خزانوں کا مالک، جائیدادوںکا بادشاہ اور آنکھ کے ہلکے سے اشارے سے لوگوں کی غربت مٹا دینے والاخود سونے اورہیرے جواہرات کے تخت پر بیٹھ کر آنسوبہاتا ہے تو وہ آنسو روح سے جاری ہو کر قلب کی آبشار سے پھوٹ کر آنکھوں سے بہتے اور گالوں کو گرما دیتے ہیں۔ تب خالق حقیقی اسے یاددلاتا ہے کہ دولت اوراقتدار کےغرور میں، خوشامدیوںکے جھرمٹ میں، عیش وعشرت کے کدوں اور جگمگاتے محلات میںبیٹھ کر مت بھول کہ تو فقط ایک انسان ہے۔ ایک گاڑے پانی کے قطرے سے جنم لینے والاانسان، مٹی کے جسم کو ڈھانپنے کے لئے عارضی لباس پہننے والا انسان ہے اورتو بنیادی طور پر انتہائی کمزور ہے۔ اپنے آپ کو فرعون مت سمجھ، خود کو دنیاکا سب سے بڑاپہلوان خیال نہ کر، دنیا کا طاقتور ترین انسان نہ بن تو فقط ایک کمزور مخلوق ہے۔ یہی تیری ابتدااوریہی تیری انتہا ہے۔افسوس کہ ابتدا اور انتہا کے درمیانی عرصے میں تو اپنی اصل حقیقت بھول جاتا ہے۔ تیری رسی دراز کردی جاتی ہے۔ تجھے اپنے حال پہ چھوڑ دیاجاتاہے۔ تیرے فیصلے تیرے ہاتھوں میں دے دیئے جاتے ہیں۔ تجھے اقتدار، اختیار، طاقت اور دولت عطا کردی جاتی ہے اور پھر تو اپنے آپ کو طاقتور اورغالب سمجھنے لگتا ہے۔ تجھے دنیا ہیچ اور لوگ حقیر لگنے لگتے ہیں۔ یہ محض ایک وقتی صورت اورمصنوعی وقفہ ہوتا ہے تاکہ تمہیں آزمایا جائے۔ تمہیںآزادی دے کر تمہاری پرواز دیکھی جائے اور تمہارے غرور، نخوت اور گھمنڈ کے مظاہر دیکھے جائیں۔ کم عقل انسان تم اسے مستقل حقیقت اور اپنی مستقل ملکیت سمجھنے لگتے ہو حالانکہ یہ آزمائش کا دور تھا کیونکہ اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کو آزمانا پسند ہے۔ آزمائش قدرت کے نظام کا ناگزیر حصہ ہے۔ آزمائش دولت کی بھی ہے، طاقت کی بھی اور اختیار کی بھی۔ آزمائش غربت بھی ہے، بیماری بھی اور جسمانی کمزوری و محرومی بھی..... اگر ساری آزمائشیں صرف دولت، طاقت اور اختیار کےلئے ہوتیں تو دنیا کس قدر بے رنگ اور بے کشش ہوتی۔ رنگارنگی،بوقلمونی، ہزاروں لاکھوں شکلیں، انواع و اقسام اور ہر لمحہ تغیر قدرت کا اصول اور فطرت کا حسن ہے۔ اس لئے آزمائش کی بھی ہزارقسمیں ہیں اور آزمائش سے شاید ہی کوئی انسان بچ نکلتاہو۔ آزمائش صوفیاکے لئے بھی ہے، اولیا کرام کے لئے بھی حتیٰ کہ انبیا ؑ کے لئے بھی..... پیغمبروںاور نبیوں پر کیا کیا گزرتی رہی اورہمارے آقا نامدارسرکار دوجہاں حضور نبی کریمﷺ پر آزمائشوںاور مشکلات کے پہاڑ کس طرح توڑے گئے ۔ سیرت نبویﷺ پر لکھی گئی کتابیںایسے واقعات سے بھری پڑی اور سجی ہوئی ہیں۔ دوستو!زندگی کو سمجھنے اور منشائے الٰہی کے ادراک کے لئے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ہم صرف چند مضامین، اخباری کالم اور کچھ تقریریں سن کر فرض کرلیتے ہیں کہ ہم نے سیرت سے آگاہی حاصل کرلی۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ مسلمان کیا ہے۔ امت کا مقدر کیا ہے، امت ِ محمدیﷺ سے اللہ پاک کیا توقع کرتے ہیں اور اس امت کے افراد کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ سمجھنےکے لئے سیرت نبویﷺ کا گہرا مطالعہ لازم ہے۔ حضور نبی کریمﷺ اللہ کے آخری نبی، سب سے چہیتے بلکہ محبوب خدا تھے لیکن آپ کو بھی کن آزمائشوں میں ڈالا گیا اور محبوب الٰہی ہونے کے باوجود آپﷺ کی مبارک آنکھوں سے بھی آنسو بہائے گئے حالانکہ آپﷺ معصوم تھےاور آپﷺ نے صرف دو دہائیوں میں انسانیت اور دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ یہ آنسو اس حقیقت کا اعتراف تھے کہ دراصل انسان کمزور مخلوق ہے اور کمزور چیز کے لئے اکڑنا، غرور کرنا، خود کو مضبوط، طاقتور اور حاکم و بااختیار سمجھنا جائز نہیں بلکہ خلاف فطرت ہے۔
انسان ظلم سہ کر بھی روتا ہے، انسان بھوک کا مارا بھی روتا ہے، انسان گناہوں کی ندامت پر بھی روتا ہے، انسان موت اورغم پر بھی روتا ہے، والدین، اولاد اور پیاروں کی موت بھی اسے آنسوئوں میں بہادیتی ہے۔ انسان محرومیوں کے زخموں کے رسنے پر بھی آنسو روک نہیں سکتا۔ آنسو خوشی کے بھی ہوتے ہیں اور آنسو غمی کے بھی لیکن اللہ پاک کووہ آنسو پسند ہیں جو انسان کی کمزوری کے اعتراف، عاجزی اور بندگی کی علامت ہوں۔ جو آنسو آنکھوں سے نہیں روح کی گہرائیوں سے پھوٹیں کیونکہ آنکھوں سے بہنے والے آنسو آنکھوں کوصاف کرتے ہیں جبکہ روح سے پھوٹنے والے آنسو باطن کی کثافت کو بہا کرلے جاتے ہیں اور یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب رحمت خداوندی جوش میں آتی اور انسان کے قلب و باطن کو منور کرجاتی ہے۔ غبارمٹ جاتااور روح کو سکون آجاتا ہے۔
انسان کو اپنی اصل حقیقت کا پتا چلتا اور وہ اپنے آپ کو اللہ پاک کےسپرد کردیتا ہے۔ اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ انسان سے اپنی مخلوق سے، ماںسے بھی ستر گنا زیادہ پیار کرتے ہیں۔ پھر وہ انسان کو اپنی رحمت اور حکمت میں ڈھانپ لیتے ہیں۔ انسان توکل کی دولت سے مالامال ہوجاتا ہے اور یہی وہ توکل ہے جسے ہم سچا توکل کہتے ہیں۔ جس توکل کے بند ٹوٹ جائیں اور صبر و تحمل آزمائش کے لمحوں میں ڈگمگانےلگے وہ مصنوعی توکل ہوتا ہے۔ اصلی توکل تو اس پہاڑ کی مانند ہوتا ہے جسے زلزلے بھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے۔ سیرت نبویﷺ کے نور کی ان گنت کرنوں میں سے ایک کرن توکل ہے۔ اس سے آپ توکل کے مقام کا اندازہ کرلیں۔ جسے توکل مل گیا اسے گویا نور محمدیﷺ کی ایک کرن مل گئی اورجسےوہ کرن مل گئی اسے گویا قیامت تک سچی بادشاہت مل گئی۔ اس کے سامنے دنیا کے سب خزانے ہیچ ہیں۔ دوستو! یہ دنیا جائے عبرت ہے۔ غور و فکر کے دروازے کھلے رکھیں تو آپ کو قدم قدم پر عبرت اور نصیحت کا سامان ملے گا۔ عبرت اور نصیحت حاصل کیجئے اس سے قبل کہ آپ کو بھی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے۔

تازہ ترین