• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل مریم نوازکی 43ویں سالگرہ تھی ۔بے شک وہ ایک بہادر ، حوصلہ منداور باغی عورت ہیں انہوں نے زندگی میں کئی بغاوتیں کی ہیں ۔بخت آور بھی بلا کی ہیں کہ ان کی ہر بغاوت کامیاب ہوئی ہے ۔وہ سیاست میں بھی اِسی باغیانہ مزاج کے ساتھ آئی ہیں ۔آتے ہی نواز شریف کی سیاسی جانشینی سے حمزہ شریف کوآئوٹ کردیااور بزبان ِقدیم کرسی ء ولی عہد پر براجماں ہو گئیں ۔انہوں نے جہاں بھی قدم رکھا وہیں ہل چل دکھائی دی ۔میڈیا سیل قائم کیا تو’’ڈان لیکس ‘‘ میں ان کا ذکر ِ خیر ہونے لگا۔نواز شریف نا اہل ہوئےتو ایوان انصاف کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوگئیں۔نیب کے مقدمات بھی ان کے رویے میں لچک پیدا نہ کر سکے ۔بس ان دنوں ایک ملال سا ان کے چہرے پر دکھائی دینے لگا ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ۔کل جب اُن سے پوچھا کہ ’’کیا آپ کی حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ نکالے گی‘‘تو انہوں نے بڑے تکلیف دہ لہجے میں سوالیہ انداز میں کہا ’’ ہماری حکومت ‘‘ اور پھر بولیں ’’آپ بھی اتنے سادہ نہیں ہیں اور ہم بھی ‘‘یعنی مریم نواز اور نواز شریف شاہد خاقان عباسی کی حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں ۔ان کے نزدیک یہ حکومت نون لیگ کی تو ہے مگر وہ کچھ کرنے پر تیار نہیں جو مریم نواز یا نواز شریف چاہتے ہیں ۔گورنرسندھ محمد زبیر سے مریم نواز کی مایوسی کا اندازہ اُس دن تمام میڈیا کو ہوگیا تھا جب وہ مارگلہ روڈ پر میاں منیر کی کوٹھی کے باہر دو گھنٹے کھڑے رہے اور واپس چلے گئے مریم نواز ان سے نہیں ملیں ۔ یہ وہی گورنر سندھ ہیں جنہوں نے اچھے دنوں میں کراچی کےگورنر ہائوس میں مریم نواز کے میڈیا سیل کی ایک شاخ قائم کر رکھی تھی۔کتنے ستم کی بات ہے کہ صدر پاکستان صدر ممنون حسین نے مریم نواز کو صدر ہائوس میں رہنے کی آفر نہیں کی ۔شاہد خاقان عباسی نے ان کےلئے وزیر اعظم ہائوس کے دروازے نہیں کھولے۔ انہیںمیاں منیر کے گھر رہنا پڑا۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی مریم نواز کو مجبور نہیں کیا کہ وہ پنجاب ہائوس میں قیام کریں حالانکہ وہ ان کے محبوب انکل ہیں ۔شاید وزیر اعلیٰ کے راستے میں بیٹے کی محبت حائل ہوگئی تھی ۔
نواز شریف چار سال تک جتنے لوگوں کے ساتھ بھلائیاں اور اچھائیاں کرتے رہے اس وقت ان میں سے بہت کم ان کے ساتھ ہیں ۔شاید نواز شریف کے نمک میں ہی وفا نہیں ہے ۔پچھلی بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔اس وقت وہ نون لیگ کے صدر ہونے کے باوجود نون لیگ میں اکیلے ہیں ۔ان کے ساتھ چلنے پر کوئی تیار نہیں ۔سب سے پہلے نواز شریف کو چوہدری نثار علی خان نے چھوڑا ۔اس کے بعدان کے سگے بھائی کے بارے میں تاثر ہے کہ انہوں نے بھائی کی پالیسیوں پر چلنے سے انکار کر دیا پھر ان کی حکومت کے ایک اہم وزیر ریاض پیرزادہ نے ان کے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔ اس وقت نون لیگ میں کئی چھوٹے چھوٹے گروپ بن چکے ہیں جن کے طیارے کسی وقت بھی اڑان بھر سکتے ہیں مگر مستقبل کے منظر نامے میں مجھے ان میں سے کسی کا چہرہ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔
میرے نزدیک مستقبل کا منظر نامہ بالکل سید ھا سادہ ہے۔ افواہ ہےکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں ۔اس بات کاعلم شریف فیملی کو ہوچکا ہے ۔اس کے بعدعبوری حکومت بنائی جائے گی جو انتخابات تک ملک کا نظم و نسق چلائے گی مگر حالات کی خرابی کے سبب عدلیہ مجبور ہوجائے گی کہ اُس عبوری حکومت کی مدت چھ ماہ سے بڑھا کر دوسال کردے تاکہ احتساب کا عمل مکمل ہوسکے ۔پھر انہی چوروں ،ڈاکوئوں کو انتخاب لڑنے کا موقع نہ مل سکے جنہوں نے ایک مافیا کی طرح اس ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ اب آتے ہیں عمران خان کی طرف کہ اس صورت حال میں وہ کیا فیصلہ کریں گے۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی لیڈر شپ تواحتساب کے عمل سے نہیں بچ سکے گی مگر عمران خان ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں ۔ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے ۔ نون لیگ کی بے وقوفانہ جوابی کارروائیوں کے سبب انہیں مسلسل احتساب سے گزرنا پڑ رہا ہے اور یہ احتساب اُس گرد کو صاف کرتا جارہا ہے جومیڈیا کی وساطت سے ان کی طرف اڑائی جارہی تھی ۔ ان کی شخصیت صاف شفاف ہو کر سامنے آ رہی ہے وہ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول ترین لیڈر بھی ہیں تمام قوم ان کے ساتھ بھی ہے سو ان کے فیصلے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگی۔ کچھ لوگ مارشل لا کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک شاعر نے مجھے ایک عجیب و غریب خط لکھا۔ ’’ منصور بھائی ۔اسلام علیکم ۔ گزارش ہے کہ پتھروں سے لہو رسنے لگا ہے ۔ آئینوں سے آنکھیں ابل پڑی ہیں ۔ راستوں کی کھلی ہوئی بانہیں انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہیں ۔ کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ۔کوئی نیا پاکستان بنتا نظر نہیں آتا ۔میں نے آپ سے کتنی بار عرض کیا ہے کہ آئین کی عمارت میں سانپ گھس آئے ہیں ۔بچھو جا بجا موجود ہیں ۔ رات کو سڑکوں پر خزیزوں کی ٹولیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مارگلہ کا جنگل شہر سے آلگا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ ہر چوک مچانیں بنا دی جائیں۔ شکاریوں کے لشکر بلا لئے جائیں ۔ اقتدار کا جنگل صفائی کا منتظر ہے ۔یقیناََ شکار کرنے سے خون پھیل پھیل جاتا ہے اس کی صفائی کےلئے بھی سے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔اب اور انتظار نہیں کیا جاسکتا ۔لٹیروں نے ملک میں کچھ نہیں چھوڑا کسی وقت پاکستان کو عالمی ادارے بنک کرپٹ کر سکتے ہیں ۔اگلے سال ہم نے صرف سود کی مدد میں پندرہ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں ۔ وہ کہاں سے آئیں گے ۔سو فوری طور پر لوٹا ہوا مال واپس لانے کی ضرورت ہے ۔کرپشن کرنے والوں کو چین کی طرح موت کی سزا دی جائے ۔بلکہ سرائے عام پھانسیوں پر لٹکایا جائے ۔ہر شعبہ ء زندگی میں صرف چند سوپھانسیاں بائیس کروڑ لوگوں کو تباہی کے دہانے سے باہر نکال لائیں گی۔یہ بائیس کروڑ لوگ کب تک قسطوں میں قتل ہوتے رہیں گے ۔‘‘
کاش مریم نواز کی باغیانہ سوچ کبھی ان بائیس کروڑ لوگوں پر بھی مرکوز ہوتی جن کے گلےمیں غربت اور افلاس کی پھانسیاں پڑی ہوئی ہیں اورجو تھوڑا تھوڑا روز سکڑجاتی ہیں ۔افسوس کہ سالگرہ کے موقع پر مجھے یہ نظام ِ زر سے لٹکے ہوئے پھانسی زدہ لوگ مریم نواز کویاد دلانے پڑ گئے ہیں ۔(معذرت)۔

تازہ ترین