• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ سندھ کی سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجوں میں داخلے کے لئے پرچہ پہلے آؤٹ ہونے کی شکایات ملی ہیں اور صوبے بھر میں طلبااور ان کے والدین احتجاج کر رہے ہیں ۔ حکومت سندھ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ کمیٹی 15 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ پرچہ پہلے آؤٹ ہوا یا نہیں لیکن اس صورت حال نے میرٹ کے نظام پر لوگوں کا یقین متزلزل کر دیا ہے ۔
سندھ کے سرکاری میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیز میں ایم بی بی ایس کی دو ہزار سے زیادہ اور بی ڈی ایس کی 450 نشستیں ہیں ۔ دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی ان اداروں میں داخلوں کے لئے طلباکو انٹری ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے ۔ اس انٹری ٹیسٹ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے انعقاد میں بے قاعدگیاں ہوتی ہیں ۔ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کی کارکردگی پر لوگوں کا اپنا اعتبار بھی ختم ہو گیا ہے ۔ اگرچہ کچھ حلقے انٹری ٹیسٹ کو زیادتی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ تعلیمی بورڈز کے امتحانات کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور ان امتحانات میں حاصل کردہ مارکس کی بنیاد پر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے دیئے جائیں لیکن یہ حلقے بھی انٹری ٹیسٹ کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی بورڈز کا نظام بہتر بنانا آسان نہیں ہے ۔ انٹری ٹیسٹ کا یہ مقصد بھی ہے کہ اہل اور قابل بچے ان اداروں میں جائیں اور وہ بچے نہ جا سکیں ، جنہوںنے نقل سے یا پیسے دے کر نمبرز حاصل کیے ہوں ۔ اس انٹری ٹیسٹ کو سب نے میرٹ کی بنیاد تصور کر لیا ہے اور اس ٹیسٹ کے بعد بننے والی میرٹ لسٹ پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ۔ ان اداروں میں اب سفارش یا حکومتی احکامات پر داخلوں کے دروازے بھی بند ہو گئے ہیں ۔ انٹری ٹیسٹ میں رہ جانے والے ذہین بچے بھی صبر کر لیتے ہیں ۔ یہ صبر انہیں میرٹ کے نظام پر صرف یقین کی وجہ سے آتا ہے ۔
کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری تھا ۔ انٹری یا داخلہ ٹیسٹ کرانے والے کئی ادارے بن گئے ۔ ان میں سب سے زیادہ ساکھ رکھنے والا ادارہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس ( این ٹی ایس ) ہے ۔ ان اداروں کے بارے میں بھی لوگوں کو یقین ہے کہ ان پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا ہے ۔ نہ تو ان کے پرچے پہلے آؤٹ ہوتے ہیں اور نہ ہی سفارش ، دباؤ یا پیسے سے کوئی زیادہ نمبر حاصل کر سکتا ہے ۔ این ٹی ایس کئی سالوں سے اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مختلف اداروں میں داخلے کے لئے ٹیسٹ لے رہا ہے ۔ اس ادارے کی ساکھ پر کبھی حرف نہیں آیا ۔
گزشتہ 22 اکتوبر کو سندھ کی تمام سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجوں میں داخلے کے لئے بیک وقت کراچی ، حیدر آباد ، نواب شاہ ، سکھر اور لاڑکانہ میں این ٹی ایس کے تحت انٹری ٹیسٹ کا انعقاد ہوا ۔ پہلی مرتبہ صوبے بھر کے لئے ایک ٹیسٹ ہوا ۔ قبل ازیں کراچی میں واقع سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجز کے الگ ٹیسٹ ہوتے تھے اور باقی سندھ کے اداروں کے لئے الگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا جاتا تھا ۔ 2 روز کے بعد انٹری ٹیسٹ کے نتائج آئے تو مختلف شہروں میں طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا ۔ احتجاج کا سلسلہ بڑھنے لگا تو حکومت سندھ نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر 5 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ۔ حکومت سندھ کا یہ اچھا اقدام ہے ۔
میرٹ کے نظام پر یقین متزلزل نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمارے ملک میں بڑی مشکل سے میرٹ کا نظام قائم ہو رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے نوجوانوں میں بے چینی ختم کرنے میں مدد مل رہی ہے اور ہمارے معاشرے میں صحت مند مقابلے کا رحجان بڑھ رہا ہے ۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے ۔ اگر پہلے پرچہ آؤٹ ہوا ہے تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ اگر پرچہ آؤٹ نہیں ہوا ہے تو لوگوں کو اس پر مطمئن کیا جائے تاکہ میرٹ کے نظام پر ان کا یقین بحال ہو سکے ۔ طلباانٹری ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے بہت محنت کرتے ہیں ۔ اگر انہیں یہ احساس ہو گیا کہ اس نظام میں بھی نقائص ہیں تو میرٹ کے ساتھ ساتھ محنت پر بھی ان کا یقین ختم ہو جائے گا اور ایسی مایوسی پیدا ہو گی ، جو سنگین نتائج کی حامل ہو گی ۔
لوگوں کو چاہئے کہ وہ حکومت سندھ کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی سے تعاون کریں اور ثبوتوں کے ساتھ اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں ۔ حکومت سندھ کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی معاونت کرے کیونکہ آج کل پرچہ آؤٹ کرنے کے لئے موبائل فون خصوصاً سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے ۔ میرٹ کے لئے بنایا جانے والا نظام بھی اگر مشکوک ہو جائے تو پھر کچھ بھی یقین کرنے کے لئے نہیں بچتا ۔ طاقت ، سفارش اور ناانصافی والے کلچر کی وجہ سے نوجوان انتہا پسندی کی طرف راغب ہوئے ہیں ۔ گزلئےشتہ چند سالوں سے شفافیت اور میرٹ کا نظام قائم ہونے سے نوجوانوں میں بے یقینی اور بے چینی کم ہوئی ہے ۔ معیار تعلیم میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان محنت اور صحت مند مقابلے میں مصروف ہو گئے ہیں ۔ میرٹ کے نظام پر نوجوانوں کا یقین نہیں ٹوٹنا چاہئے ۔

تازہ ترین