• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈیانا جونز کے سلسلے کی ایک فلم جس میں بہت سے عرب فلم کے ہیرو ہیرسن فورڈ کو گھیرے کھڑے ہیں۔ان میں سے ایک عرب کوڑا لہراتا ایسے آگے بڑھ رہا ہے جیسے ہیرسن فورڈ کا کچومر نکال دے گا۔ ہیرسن فورڈ اپنےنیفے سے پستول نکالتا ہے۔ اسے گولی کا نشانہ بناتاہے اور آرام سے نکل جاتا ہے۔ عربوں کایہ بھرا مجمع دیکھتا رہ جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بار کسی جنگل میں الیکشن ہوا اوراس کے نتیجے میں بندر کامیاب ہو گیا۔ بندر کے بادشاہ بننے کی گونج ابھی کم بھی نہ ہوئی تھی کہ ایک مادہ خرگوش اپنےبچے کےگم ہونےکی شکایت لے کر اس کے پاس آئی۔ بندر نے اِدھر اُدھر دوڑ لگائی کبھی ایک پیڑ پر چھلانگ ماری کبھی دوسرے پر۔ پھر قلابازی لگا کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اورپوچھا کیسا ہے؟ اس نے کہا بادشاہ سلامت یہ سب تو ٹھیک پر میرا بچہ کدھر ہے؟ بندر نے پھر وہی کیا۔ قلابازی وغیرہ اور پھر پوچھا کیسا ہے؟ خرگوشنی روہانسی ہوگئی اور کہا ’’بادشاہ سلامت میرا بچہ ڈھونڈو۔‘‘ بندر نے کہا ’’بچے کو چھوڑو میری آنیاں جانیاں دیکھو‘‘
بلوچستان کے ایک قبائلی سردار نے اپنے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں تاکہ بلوچوں کی آبادی بڑھا کر اپنے وسائل واپس لئے جاسکیں۔ ہمارے بعض علما حضرات بھی ایسا ہی موقف رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنےچاہئیں تاکہ مسلمانوں کی فوج میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے۔ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو اب بھی مسلمانوں کی ڈیڑھ ارب سے زائدآبادی کو صرف ایک کروڑ 10لاکھ کے قریب یہودیوں پر غالب آجانا چاہئے۔
کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کو 70برس مکمل ہونے پر مختلف ریلیاں نکلیں۔ ایک بڑی ریلی حافظ سعید صاحب کی جماعت کے لوگوں نے بھی نکالی اور کشمیر جہاد وغیرہ کے حوالے سے خطاب کیا۔ حافظ سعید کو شاید پچھلے دنوں ہمارے دفتر خارجہ کے افسران کے مطابق بین کردیاگیا تھا مگر ان کی پارٹی کو ایسی ریلیاں نکالنے کی کھلی اجازت ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کو دسمبر 2013میں پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کا چیئرمین بنایا گیا۔ اس کمیٹی کے چیئرمین کو وفاقی وزیر کے برابر مراعات اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں اور اس عہدے کو وفاقی وزیر کی سطح کا عہدہ شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس سے پہلے بھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس یوم کشمیر کے موقع پر جب کشمیر کمیٹی کے سربراہ کا بیان ٹی وی پر دیکھا تو ایک رکن نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آج کشمیر کمیٹی اپنا سالانہ فرض ادا کر رہی ہے۔ اس جملے سے کشمیر کمیٹی کی سالہا سال کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بس میں یہی سب کچھ سوچ رہا ہوں۔ خیالات ہیں کہ منتشر سے منتشر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انٹرنیشنل اداروں، ملکوں پر کیااثر ڈال سکتے ہیں ایک آدھ سیمینار کروادینے سے انہوں نے کون سی منزل پالی ہے۔ انہیں اس کے عوض کیا مراعات ملتی ہیں؟ اس کا کوئی احتساب ہی نہیں۔ اپنی چند سیٹوں کے بدلے وہ ہمیشہ برسراقتدار حکومت سے سیاست کرتے ہوئے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ طلب کرتے ہیں اور حکومتیں اپنی سیاسی قوت میں اضافے کےلئے ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتی ہیں۔
ایک طرف تو یہ دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت پاکستان میں حالیہ ہونے والی تبدیلیوں خاص طور پر فاٹا اصلاحات کے حوالےسے حکومت مخالف ہیں۔ گاہے گاہے وہ اداروں کے متعلق بیان بھی دے دیتے ہیں۔ وہ طالبان کی کھل کر مذمت نہیں کرتے۔ دہشت گردی کی واردات کے پس پردہ کرداروں کے حوالے سے ان کے بیانات شبہ پیدا کرتے ہیں۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے حوالے سے ان کی سوچ دقیانوسی ہے۔ انہیں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا صحیح ادراک نہیں ہے لیکن نواز شریف صاحب انہیں ساتھ رکھنے پر مجبور نظرآتے ہیں۔ ایسے عالم میں کہ لوگوں کو صحیح رہنمائی دی جائے انہیں بتایا جائے کہ تبدیلی تعداد میں اضافے سے نہیں بلکہ استعداد میں اضافے سے آئے گی۔ سوچ مثبت ہونے کا مطلب اپنے حالات سےصحیح آگاہی ہی ہے نہ کہ اپنے بارےمیں یہ غلط فہمی کہ ہم بہت مضبوط ہیں۔
ایک ایسا ملک جس پر بیرونی قرضوںکا اتنا بوجھ ہو وہ بھارت ایسے ملک سے مقابلے کا سوچتا ہے جس کے فارن ریزرو 300 ارب سے تجاوز کر رہے ہیں۔ جس کی امریکہ اور چین کے ساتھ تجارت میں اتنااضافہ ہو چکا ہے کہ جس کا شمار ممکن نہیں اور جس کی اکانومی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ 2018 میں اس کی شرح رفتار دنیا میں سب سے زیادہ ہوگی۔کشمیر کے حوالے سے صرف یہ عرض کہ اگر کسی نے کشمیر کا مسئلہ واقعی صحیح معنوں میں اجاگر کیاہے تو وہ بھارت کا شہری ایک ہندو وشال بھردواج ہے۔ کاش مولانا فضل الرحمٰن فلم ’’حیدر‘‘ دیکھ پائیں اور انہیں اندازہ ہو سکے کہ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنےکے لئے کس طرح کی کاوشوں کی ضرورت ہے؟
مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ایک اچھی اسٹریٹجی بنانی پڑے گی۔ اس کے لئے ہمیں Campagin بنانےوالے ماہرین کی مدد چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے گرد کشمیر کمیٹی میں جس طرح کے لوگ رکھے ہیں ان سے تو کم از کم اس طرح کی کوئی امید نہیں ہے۔ تو پھرصرف بڑھکیں مارنے سے کیا فائدہ؟

تازہ ترین