• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے مقاصد، اس کی تاریخ، حال اور مستقبل کے حوالے سے یہ امر پتھر پر لکیر ہے کہ مملکت نے ہر حالت میں بمطابق آئین جمہوری بننا ہے، جس میں سیاسی اور فوجی دونوں حکومتیں بڑی رکاوٹیں بنتی رہی ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے انہوں نے اس ہدف کے لئے بے حد و حساب قربانیاں دیں اور جدو جہد کی، ہماری ستر سالہ تاریخ میں قومی سطح کی عوامی سیاسی تحاریک کا ریکارڈ شاندار ہے جس کے اہداف ریاست کو حقیقی معنوں میں جمہوری بنانے کے لئے متعین کئے جاتے رہے۔ خواہ کوئی تحریک پارلیمانی نظام اور حق بالغ رائے دہی اور صوبائی خود مختاری کے لئے ہو، آزادی صحافت یا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اور غیر جانبدار ، شفاف انتخابات ہدف ہویا انتظامیہ کے اثر سے آزاد عدلیہ کے قیام کی تحریک، چاروں صوبوں کے عوام اس میں بھرپور جذبے سے شامل ہوتے رہے اور اہداف حاصل کرتے رہے۔ سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر یہ اہداف حاصل تو عوام اپنی جدوجہد سے کرتے رہے لیکن حکمرانوں نے ہمیشہ عوام کو دھوکا دے کر اپنے وقتی سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے حاصل شدہ اہداف کو ختم کرکے نظام حکومت کو خلاف آئین مرضی سے چلاتے حتیٰ کہ آئین میںا س کی روح کے خلاف غیر جمہوری اور غیر قانونی ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑتے رہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران ملک و قوم کےخلاف اتنا منفی کیوں کرتے رہے، آج جب ہم 70سال کے بعد ریاستی و حکومتی نظام میں اس بڑے ناقابل تلافی بگاڑ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی وجوہات اب ثابت شدہ ہیں، وہ ہیں ہمارے سول منتخب یا سول ملٹری حکمرانوں کی نیت کا فتور، ہمارے منتخب سول حکمران حکومت میں آ کر عوام کی فلاح اور ملکی ترقی سے نظریں چرا کر اپنی ترقی کے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے لگے اور اس کا گراف اتنا بڑھا کہ آج پاکستان کے وسائل اور عوامی دولت حکمرانوں کے ہاتھوں لٹ کر بیرون ملک ٹھکانے لگا دی گئی۔دوسری جانب خود کو عقل کل جانتے ہوئے فوجی ڈکٹیٹر جمہوریت کی حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی مرضی کے جمہوری ماڈل آزماتے ہوئے اقتدار کی طوالت پر فوکس کئے رہے، اس تگ و دو میں انہوں نے ایسے ایسے سیاست دان گھڑے جو حکمرانی کے اس عوام دشمن دھندے کو بڑھانے میں آئیڈیل ثابت ہوئے اور پھر اپنے سرپرستوں کے کنٹرول سے بھی باہر ہو کر ایک سے ایک بڑے حربے سے خود کوجاری و مسلط نظام بد (قوم وملک کے لئے) کا خطرناک تخلیق کار ثابت کیا۔ یہ جو اربوں کھربوں کی کرپشن موجود اور اس سے قبل کے سول منتخب دور میں ہوئی اس کے مرتکب سیاست دان ان کے معاون کرپٹ افسر شاہی، کوئی عوام الناس کی طاقت سے نکلی نہ سیاست دانوں کے اعلیٰ کردار و صلاحیت سے بنی، بلکہ ان کی روٹس بھی فوجی آمریت کے ادوار میں ملتی ہیں، جب ان کا بیج ڈالا گیا اور انہیں تقویت دی گئی۔ آج یہ اپنے اپنے طاقتور و سیاسی خاندانوں کے زور پر ملک کے سیاسی دیوتا ہیں جو جمہوریت اور ترقی دونوں کے بدترین دشمن ثابت ہوئے۔ تبھی تو آج کتنے ہی چھوٹے بڑے دریائوں کا حامل پاکستان اور اس کا پانچ بڑے رواں دواں دریائوں کا شہرہ آفاق زرعی صوبہ پنجاب اپنا امتیاز کھو کر کبھی بھارتی آلو، ٹماٹر کا محتاج ہوتا ہے کبھی پیاز اور لہسن تک باہر سے آتاہے۔ دالیں ہم امپورٹ کر رہے ہیں، فروٹ اور دودھ، مکھن اور دوسری ڈیری پروڈکٹس بھی۔ ہم پانچ سات بڑی ٹیکسٹائل نیشنز میں شامل ہو کر کبھی کا یہ اختیار کھو بیٹھے۔ آج یہ نہیں کہ گارمنٹس کی بجائے روئی اور دھاگہ ہی دوبارہ برآمد کرنے لگے ہیں بلکہ تیز تر اور معیاری پیداواری عمل کی ہم چھوٹی بڑی درجنوں ٹیکسٹائل ملز ٹھپ کر بیٹھے کہ ہم نے بجلی پیدا کرنے کے اپنے آٹھ نو ملکی میسر ذرائع کو نظر انداز کرکے امپورٹڈ آئل پر بجلی بنانا شروع کر دی اور یہ بھی خود نہیں،یہ بیشتر سرمایہ کاری غیر ملکی ، آئی پی پیز نے کی اور بے پناہ منافع کمایا اور کما رہے ہیں، ہمارے حکمرانوں کے سینکڑوں اربوں کے اس حوالے سے اسکینڈلز کی کونسی کرپشن کہانی ہے جو مکمل ثبوتوں اور چبھتے سوالات کے ساتھ میڈیا پر بار بار نہیں آئیں اور آرہی ہیں، لیکن نہ ٹس سے مس، نہ جواب، اس پر حکمرانوں کا بس یہ فخر ہے کہ ایک نے ملک کو اندھیروں میں ڈبودیا ہم نے عوام پر بجلی چور صنعت کار تاجروں کی صرف شدہ بجلی کا بوجھ ڈال کر ہی سہی شہر پھر روشن کردیئے۔ چھوٹے شہروں اور دیہات میں یہ کوئی اتنا ضروری نہیں اگر لوڈشیڈنگ کی صورتحال پچھلی حکومت سے بہتر ہے تو اس پراکتفا کریں۔ کیا ضروری ہے کہ آئی پی پیز کی اربا ہا کی ادائیگیاں آڈٹ اعتراضات دور کرکے کی جائیں۔
’’آئین نو‘‘ میں ابتدائے اقتدار (موجودہ حکومت کے)پر بار بار واضح کیا گیا کہ رزلٹ اورٹینٹڈ ترقیاتی عمل اور کرپشن سے پاک گورننس کی ضمانت ترقیاتی سرگرمیوں میں انٹینڈڈ بینی فشریز(عوام الناس) کی پالیسی سازی، فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں عملاً شرکت کئے بغیر یعنی پارٹیسپیٹری اپروچ اور ای گورننس کے بغیر ممکن نہیں اور گورننس ، ترقیاتی عمل دونوں بیمار، مشکوک اور شدت سے متنازع عمل ہوں گے۔ لیکن پورے میڈیا کے قابل تحسین مانیٹرنگ کے کردار کو ’’ترقی کا دشمن کردار‘‘ سے تعبیر کرکے پوری ڈھٹائی سے من مانی گورننس جاری رکھی گئی۔ فنی نوعیت کے اور علوم کی معاونت کے شدت سے مطلوب شعبوں میں ایسے ایسے ایڈوائزر رکھے گئے کہ چوٹی کا پیشہ، ایڈوائزری اپنے معنی ہی کھو بیٹھا اور ہر وزارت اور محکمے میں عطائیت کا غلبہ ہوگیا جس کی موجودگی سے حکمران علوم مہارت اور مفادمخالف مشاورت سے بچے رہے اور عطائیوں کو ان کی کمال وفا پر ناجائز آسودگی اور تمغے بانٹتے رہے۔
حقیقی جمہوریت اور گڈ گورننس بذریعہ ’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں‘‘ نفاذ اور اس کے ساتھ ٹیکنو کریسی کو اس کے اصل مقام پر لانا اور سب سے بڑھ کر متعلقہ قانون سازی لازمی قومی ضرورت بن چکے۔ اس کا ایجنڈا الیکشن 18کی انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں ڈھالنا ہماری قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کا بڑا چیلنج ہے۔ پھر خاتمہ کرپشن اور گورننس اور عوامی خدمات کے امور کو شفاف اور قابل اعتماد رکھنے کا لازم تقاضا، ای گورننس بھی، جس کے بغیر عوام دوست حکمرانی کا اب کوئی تصور نہیں ، سے حالات ساز گار ہونے کے باوجود انحراف بدنیتی کا واضح ثبوت۔
اب عوام الناس خصوصاً میڈیا جمہوری و ترقیاتی عمل کے مانیٹر اور ناقدین ہیں، ان کا یہ کردار بڑھتا ہی جائے گا، اس سے جان چھڑانے کی حکمرانوں کی مزاحمت جمہوری اور ترقیاتی عمل میں حسب معمو ل رکاوٹ اور کرپشن کی بدستور وجہ تو بنی رہے گی، لیکن اسٹیٹس کو کی یہ گاڑی یوںچلے گی نہیں، کہ موجودہ حکمران اور عازمین حکومت و تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما یاد رکھیں کہ حقیقی جمہوریت اور ترقیاتی عمل کے خلاف ان کی مزاحمت، انہیں آئین و قانون کی جکڑبندی میں جکڑتی جائے گی۔ سب ادارے اور ذمہ داران آئین کے مطابق اپنی حد میں رہ کر مطلوب جمہوری اور ترقیاتی عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔

تازہ ترین