• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک اگرچہ پرانی ہے، وہ ڈوگرا راج کے خلاف شروع ہوئی تھی اور اُسی ڈوگرا راج کے راجہ ہری سنگھ نے 27 اکتوبر 1947ء کو ناجائز طور پر بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرلیا تھا، کیونکہ کشمیری پہلے ہی ڈوگرا راج کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے اور قریب تھا کہ وہ آزادی حاصل کرلیتے مگر شکست سے بچنے کے لئے وہ ڈوگرا راجہ جو ظلم و ستم کا سنگین ارتکاب کررہا تھا اس نے بھارت کی گود میں پناہ لی، اگرچہ کشمیری نہ صرف آزادی ڈوگرا راج سے چاہتے تھے بلکہ ریلڈ کلف ایوارڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں شمولیت بھی اختیار کرنا چاہتے تھے، کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور بھارت نے وہاں فوج کشی کرکے جدوجہد آزادی کشمیر کو دبا لیا، اگرچہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے ڈوگرا فوج کو ہرا کر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرا دیا، یہی کشمیر میں ہونا تھا، اگر مقابلہ صرف ڈوگرا راجہ کی افواج سے ہوتا مگر بھارت کی جارحیت نے ایسا نہ ہونے دیا تاہم کشمیریوں کی جدوجہد کی وجہ سے کشمیر کا آدھا یا ذرا اس سے زیادہ حصہ آزاد کرا لیا جو آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے، کشمیری پورے کشمیر کو آزاد کرا لیتے اگر بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ نہ جاتے اور اقوام متحدہ سے جنگ بندی اِس شرط پر نہ کراتے کہ استصواب رائے ہوگا۔ پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تھا وہ ہندو کی چالاکیوں ،مکاریوں و عیاریوں سے تو واقف تھا مگر اس بات سے ناآشنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی مسئلے کو الجھا دے گی۔ برطانیہ نے اس مسئلے کو جان بوجھ کر کھڑا کیا تاکہ پاکستان اور بھارت ہمیشہ آپس میں لڑتے رہیں اور برطانیہ کا کردار اُسی طرح سے برصغیر پاک و ہند میں رہے جس طرح کا کردار وہ یورپ میں کئی صدیوں سے برقرار رکھتا رہا ہے۔ برطانیہ یورپ کے متحارب ملکوں میں اپنا وزن اُس کے حق میں ڈال دیتا تھا جس کی پوزیشن کمزور ہوتی، کشمیر کے معاملے میں بھارت کمزور تھا اس لئے وہ اس کو الجھائے رکھنا چاہتا تھا اور اب کشمیر کی وجہ سے پورا جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حالیہ امریکی انتظامیہ نے جب پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اس کی یہ وضاحت کی کہ اس میں پورا جنوبی ایشیا شامل ہے۔ بظاہر کشمیر کی طرف وہ اشارہ کررہے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے دورے کے موقع پر پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ کشمیر پاکستان کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے اور وہ افغانستان کے سلسلے میں جو کچھ کرسکتے تھے کردیا، پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے نہیں بلکہ پاکستان کے علمائے کرام نے طالبان پر واضح کردیا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی بغیر ویزے کے رہ سکتے ہیں، اس کے بعد شنید ہے کہ بہت سے خاندان افغانستان منتقل ہوگئے ہیں۔
کشمیریوں نے روزِاوّل سے بھارتی تسلط کو قبول نہیں کیا اور مکمل حالت ِجنگ میں ہے۔امریکی دبائو یا امریکی وزیرخارجہ کے دورئہ بھارت کے موقع پر بھارت نے کشمیریوں کو مذاکرات کی پیشکش کی جو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ وہ اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک پاکستان جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا وکیل ہے کو مذاکرات میں شامل نہ کیا جائے۔ بھارت سیاست کھیل رہا ہے جبکہ وہ کشمیریوں کو آزادی دینے کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوت ہیں جبکہ بھارت ایک غیرذمہ دار اور پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، اس لئے پاکستان ایٹمی جنگ کی ہولناکی سے آشنا ہے مگر بھارت کا کوئی بھروسہ نہیں، اگر اس نے چھیڑچھاڑ شروع کی تو وہ انتہائی عبرتناک انجام سے دوچار ہوگا کیونکہ پاکستان نے ہر میدان میں جارحیت کو روکنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے، امریکہ چین کو عالمی طاقت اور امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے سے روکنے کے لئے بھارت کو استعمال کرسکتا ہے اور اس کو کچھ ایسا اسلحہ اور معلومات دے سکتا ہے جیسا کہ اس نے مصر کے خلاف ایک جنگ میں اسرائیل کو دی تھی، اس کو بھی پیش نظر رکھ کر پاکستان نے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرلیا ہے اور ممکنہ طور پر ہم بھارت کو عبرت ناک شکست دینے کے لئے تیار ہیں، اگر اس نے کوئی مہم جوئی کی البتہ اگر وہ واقعی صلح جوئی کی طرف پلٹتا ہے تو پاکستان احتیاط کے ساتھ اس سے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔
کشمیر ایٹمی اور عالمی جنگ کا فلیش پوائنٹ ہے، یہ بات امریکہ اور ساری دنیا کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے، کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس پر بھی عالمی ضمیر خاموش ہے اور انسانیت کی جو تذلیل ہورہی ہے اس کا بھی بھارت اور امریکہ کو حساب و جواب دینا ہوگا کہ نہتے کشمیری ساڑھے ساتھ لاکھ کیل کانٹے سے لیس بھارتی قابض فوج سے نبردآزما ہیں، اُن کے نوجوانوں کو معذور کیا جارہا ہے، عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے، بچوں تک کو نہیں بخشا جارہا ہے۔ عورتوں کے بال کاٹے جارہے ہیں۔ بھارت کے اکثر دانشور اس پر متفق ہیں کہ بھارت جو کرلے کشمیر اس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور اس کا طاقت کا استعمال حالات کو اور خراب کررہا ہے، بھارتی حکمراںکشمیریوں کو اکسا رہے ہیں کہ مسلح جدوجہد کریں مگر کشمیریوں نے جدوجہد آزادی کو پُرامن رکھا ہوا ہے اور پُرامن احتجاج کے ذریعے عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں تاہم کئی امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ صورتِ حال اس مقام پر پہنچ گئی جیسا کہ ایک زمانے میں سائپرس کی تھی جنہوں نے برطانیہ کے خلاف بغاوت شروع کی تھی اور برطانیہ کو قبرص سے نکال کر دم لیا تھا مگر بھارت کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں اس لئےاُسے کھلی شکست دینے کی ضرورت ہے ورنہ وہ باز نہیں آئے گا اور کشمیری بھی ڈٹے ہوئے ہیں ۔ 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منا یا جاتا ہے جو اس سال بھی بنایا گیاتاکہ بھارت کے قبضے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جاسکے۔ کشمیریوں نے اگرچہ 1989ء میں ایک بڑی سخت مزاحمتی تحریک شروع کی تاکہ وہ خودمختاری حاصل کرسکیں اور جس کے بعد بھارت پاکستان سے مذاکرات کی طرف مائل ہوا۔ مذاکرات تو سکھم میں چینیوں کے ہاتھوں بھارتی شکست کے بعد بھی امریکی ایما پر شروع ہوئے تھے مگر وہ ناکام رہے اسی طرح 2004ء میں بھارت نے پھر مذاکرات کئے مگر وہ بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ بھارت نہ مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور نہ کشمیریوں کو کسی حالت میں آزادی دینا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ کےطے شدہ طریقہ استصواب رائے کی اس نے دھجیاں بکھیر دیں اور ریاستی دہشت گردی کو بڑھا دیا۔ اب تک کشمیری 95 ہزار کے قریب شہادتوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔جن میں 23 ہزار کے قریب خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک لاکھ آٹھ ہزار کے قریب بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ہزاروں نوجوان معذور کردیئے گئے ہیں اور ہزاروں نوجوان غائب ہیں، انہیں بدترین تشدد اور اذیت ناک طریقوں سے تحریک آزادی کشمیر سے تائب ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے مگر کشمیری نوجوانوں کی آزادی کے حصول میں خواتین بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں، وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، وہ آزادی چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، کوئی موقع ایسا نہیں جاتا جب وہ احتجاج نہیں کرتے۔ بھارت وہاں کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنا چاہتا ہے، وہاں پتھر مار ہندو کی ایک تنظیم بنارہا ہے جو یو پی سے آ کر کشمیریوں کی بھارتی فوج پر پتھر مار مہم کا جواب دے گی۔ بھارت کچھ بھی کر لے مگر کشمیریوں کی آزادی کی خواہش بڑھتی ہی جائے گی اورہ کسی صورت بھارت کا قبضہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ اب معاملہ سمٹ جانا چاہئے، نمٹ جانا چاہئے، کشمیریوں کی خواہش پوری کر دینا چاہئے اور یہ کام عالمی طاقتوں کا ہے کہ وہ بھارت کو سمجھائیں تاکہ انسانی المیہ جنم نہ لے، عالمی جنگ نہ چھڑ ئے اور حق حقدار کو مل جائے۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ چاہئے تو کشمیر کا مسئلہ حل کرا کر اس خطے میں امن قائم کرا سکتا ہے اور خود اپنے لئے ایک مقام بنا سکتا ہے وگرنہ پاکستان کے عوام اس سے بدظن ہوتے جارہے ہیں اور امریکہ کے مفادات نہ صرف افغانستان میں بلکہ عالمی طور پر بھی زد پر ہیں کیونکہ پاکستان امریکی حمایت سے گریز کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

تازہ ترین