• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قمر زمان کائرہ کو مبارک ہو، اب وہ نئے بال لگوانے کے بعد اس کلب کے ممبر بن گئے ہیں جس کے روح رواں میاں نوازشریف ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب معاہدے کی صورت میں شریف فیملی بیرون ملک گئی تھی تو واپسی پر اور تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی مگر دو تبدیلیاں نمایاں تھیں ایک یہ کہ شریف برادران نے بال لگوا لئے تھے نوازشریف اور شہباز شریف کے سروں کی جو حالت 99ء میں تھی وہ واپسی پر نہیں تھی، دوسری تبدیلی صرف میاں نوازشریف میں آئی وہ اچھے بھلے شلوار قمیض پہنتے تھے مگر واپسی پر انہوں نے جب بھی کسی غیر ملکی کو ملنا ہوتا تووہ ملاقات سے پندرہ منٹ پہلے سوٹ پہن لیتے۔ پتہ نہیں میاں صاحب کو سوٹ پہننے کا مشورہ کس نے دیا تھا حالانکہ میاں صاحب کو سوٹ، سوٹ نہیں کرتا مگر اب بھی وہ پاکستان سے باہر جاتے ہی سوٹ پہن لیتے ہیں ملک کے اندر ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ شلوار قمیض پہنے سیاسی اجلاسوں کی صدارت کررہے ہوتے ہیں جونہی کسی غیر ملکی کے ملنے کا وقت آتا ہے میاں صاحب اپنا بدن سوٹ میں ڈال لیتے ہیں۔
قمر زمان کائرہ اور دیگر سیاستدانوں کے بال لگوانے کے عمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو معاشرے اور ملک کی خوبصورتی سے زیادہ اپنی فکر ہے وہ کس قدر خودپرستی کا شکار ہیں کہ ان سے گنجا پن بھی برداشت نہیں ہوتا، وہ لباس بھی برینڈڈ پہنتے ہیں، یوسف رضا گیلانی تو اس کی نمائش کرتے رہے ہیں۔ انسان کو ماضی یاد رکھنا چاہئے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کے لیڈر اپنے لباس اور اپنی ثقافت پر ناز کرتے ہیں ہمارے ہاں آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سوٹ پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں، میاں نوازشریف کا حال پہلے بتا چکا ہوں، شہباز شریف کبھی ہیٹ پہن کر، کبھی لمبے بوٹ پہن کر، پتہ نہیں کس کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں، عرصہ ہوا انہیں شلوار قمیض میں دیکھا نہیں گیا، مجھے تو حالات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں آصف زرداری اور میاں نوازشریف اپنے مشترکہ دوست مولانا فضل الرحمٰن کیلئے کوئی سوٹ نہ لے آئیں۔ امور خارجہ کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین تووہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں بن گئے تھے، ایک طویل عرصے سے وہ کشمیر کمیٹی کے بلامقابلہ چیئرمین بنتے آرہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کی اگلی منزل وزارت خارجہ ہو۔
آصف علی زرداری اگرچہ آج کل زیادہ وقت لاہور میںگزارتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کے بھی لاہوری پھیرے زیادہ ہوگئے ہیں، پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی زیادہ وقت لاہور میں گزارتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت پیپلز پارٹی پنجاب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے کہ ایسا کیوں ہوا، آپ کے سامنے دو تین باتیں رکھنا چاہتا ہوں جس کے باعث پیپلز پارٹی اس حال کو پہنچی۔ پیپلز پارٹی اچھی بھلی عوامی پارٹی تھی، گلی، محلوں اور چوکوں چوراہوں پر اس جماعت کا راج تھا، آصف علی زرداری اس پارٹی کو پوش ٹائون کے ایک گھر میں لے آئے، انہوں نے پارٹی کو ڈرائنگ روم میں منتقل کیا، پیپلز پارٹی میں نظریاتی لوگوں کا مقام ہوا کرتا تھا، اب یہ مقام نظریات کی بجائے دولت نے لے لیا ہے۔ اسی چکر میں نظریاتی لوگوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے بانی چیئرمین نے اسلام آباد میں پلاٹ لینے سے انکار کردیا تھا، اب پارٹی کے چیئرمینوں کے پتہ نہیں کہاں کہاں گھر ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان نوازشریف کی نوکری کرنے سےہوا، اگرچہ زرداری صاحب اسے مفاہمت کا نام دیتے رہے حالانکہ یہ سوائے نوکری کے کچھ بھی نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں بنی، بھٹو صاحب کو وزیراعظم بنانے والا پنجاب ہی تھا، محترمہ کو مضبوط گرائونڈ پنجاب ہی نے فراہم کیا، مگر اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہورہی ہیں شاید اس میں پیپلز پارٹی پنجاب کی ’’لینن پرست‘‘ قیادت کا قصور زیادہ نہ ہو اگرچہ اس میں ایک قصوری کے مشورے بھی شامل ہیں۔ اس کارکردگی پر آصف علی زرداری سخت پریشان ہیں۔ ندیم افضل چن کے عہدہ چھوڑنے کے بعد پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ان برے حالات میں مخدوم فیصل صالح حیات کئی نامور سیاستدانوں کوپارٹی میں لانے کیلئے تگ و دو کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی پنجاب کے اگلے صدر فیصل صالح حیات ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اگلے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوید چوہدری ہوں کیونکہ آصف علی زرداری کوموجودہ ٹیم نے بہت پریشان کر رکھا ہے واضح رہے کہ اس ٹیم نے تو دفتر چلانے کیلئے خرچے کا مطالبہ کردیا تھا مگر پھر حاجی نواز کھوکھر کے صاحبزادے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ نہیں یہ تمام اخراجات میں کروں گا۔رہی ن لیگ تو اس کے بارے میں ایک ٹی وی اینکر نے بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے کہ 85ء میں غیر جماعتی الیکشن سے جنم لینے والی مسلم لیگ پھر مسلم لیگ ن بن گئی، مشرف آیا تو ق بن گئی، مشرف گیا تو پھر سے ن بن گئی۔ مسلم لیگ کی تاریخ یہی ہے و ہ ہمیشہ اقتدار پرستی کی دوڑ میں رہتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کردیئے ہیں کہ ایک نااہل شخص پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا۔ اتوار کو لاہور میں کرکٹ میچ کے دوران ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگانے پر چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ نوازشریف کے خلاف نعرے لگانے پر پولیس نے یہ کیوں کیا؟ نوازشریف اس وقت ملک کے وزیراعظم تو نہیں ہیں، اس گرفتاری پر تو الٹا پولیس والوں کے خلاف مقدمہ بننا چاہئے۔ انہوں نے عام شہریوں کو گرفتار کر کے سیاسی جانبداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے اس طرح عام شہریوں کو حبس بے جا میں رکھا۔ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہئے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے نوازشریف کی پریشانی بہت بڑھتی جارہی ہے، یہ پریشانی اقتدار سے نکلنے کی بھی نہیں، گرفتاری کے خوف کی بھی نہیں، یہ پریشانی شاید دولت کے چھن جانے کے خوف کی ہے، اسی بیماری میں پیپلز پارٹی کی قیادت بھی مبتلا ہے، انہیں جیلوں اور گرفتاریوں کا ڈر نہیں، صرف دولت چھن جانے کا خوف ہے۔ یہی اگلا موڑ ہے، اس موڑ پر لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی، اب سخت ترین احتساب کا وقت آچکا ہے، یہی خوف ہے لٹیروں کو بلکہ چوروں کی پوری بارات کو۔ اب اگلے موڑ پر یہ ایک دوسرے کو ریحانہ قمر کا یہ مصرع سنایاکریں گے؎
مجھ پہ گزری ہے ترے بعد قیامت کیسی

تازہ ترین