• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاست کے ساتھ ثقافت کا مرکز بھی لندن بن گیا ہے۔ یہی دیکھئے کہ ہمارے نواز شریف صاحب لندن میں بیٹھے ہیں۔ وہ کچھ دن کے لئے سعودی عرب گئے تھے۔ اس کے بعد پھر لندن پہنچ گئے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان نواز شریف صاحب سے ملنے لندن چلے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی کو تو جا نے دیجئے کہ ان کے سر چھپانے کو اور کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے دوسرے سیاست دان بھی جب کبھی کوئی اہم معاملات طے کرنا ہوں تو لندن کا ہی رخ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئی سیاست، مگر اب ہماری ثقافتی سرگرمیاں بھی لندن میں ہی پروان چڑھ رہی ہیں۔ لاہور لٹریچر فیسٹیول لاہور میں شروع ہوا تھا۔ پہلے اسے الحمرا میں جگہ ملتی رہی۔ اس کے بعد وہ لوگ خانہ بدوشوں کی طرح اپنا ٹانڈا اٹھائے کبھی اس ہوٹل میں تو کبھی اس ہوٹل میں اپنے اجلاس کرتے رہے۔ اب معلوم نہیں اگلے سال انہیں کہاں جگہ ملے گی۔ لیکن انہوں نے لندن میں اپنے لئے ایک معقول جگہ بنا لی ہے۔ پچھلے سال ان کا ادبی جشن لندن میں ہوا اور اس سال بھی لندن میں ہی ان کا دوسرا جشن ہو رہا ہے۔ لندن میں جشن منانے کا ایک اور فائدہ بھی ہے۔ وہاں ہندوستان کے ادیب اور شاعر بھی شرکت کر سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ادیبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اب یہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کا جشن ادب ہو یا لاہور کا جشن، اس میں آپ کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی و ثقافتی کانفرنس کو بھی شامل کر لیجئے، ان میں ہندوستان کے اردو ادیب اور شاعر بھی شریک ہو تے رہے ہیں۔ اب تک حال یہ تھا کہِ، اگر کسی جشن میں دونوں ملکوں کے ادیب شاعر اور دانشور شریک نہیں ہوتے تھے تو جشن کی وقعت وہ نہیں رہتی تھی جو سرحدوں کے پار بسنے والے مفکروں کے باہم میل جول سے پیدا ہو تی ہے۔
اب ارن دھتی رائے کے بقول گجرات کے للا نریندر مودی کی سرکار آنے کے بعد صرف ویزا کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ انسانی جان کو بھی خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں ایسی خوفناک فضا پیدا کر دی گئی ہے کہ اس ملک کے ادیبوں کا پاکستان آنا، اور پاکستان کے ادیبوں کا وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہندوستان کے ادیب، خاص طور سے مسلمان ادیب ،ڈرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان آگئے تو واپسی پر ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا جا ئے گا۔ ادھر ہندوستان جانے والے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہاہے؟ اس کی ایک مثال کشور ناہید ہیں۔ اردو کے ایک ہندو عاشق صراف صاحب نے ریختہ کے نام سے دلی میں ایک ایسی تنظیم بنائی ہے جو اردو کا نیا پرانا تمام ادب آڈیو ویڈیو کی شکل میں محفوظ کر رہی ہے ۔یہی ریختہ ہر سال ادب کا جشن بھی مناتی ہے۔ اس جشن میں پاکستان کے ادیب بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ پچھلے سال کشور ناہید ریختہ کی دعوت پر اس جشن میں شرکت کر نے گئی تھیں۔ ظاہر ہے کسی شاعر یا ادیب کو صرف اس کی شکل دیکھنے کے لئے تو ایسی محفلوں میں نہیں بلایا جاتا۔ یہ ادیب اور شاعر وہاں اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ پچھلے سال کشور ناہید کو وہاں باقاعدہ دعوت دے کر بلایا گیا۔ لیکن جب مشاعرہ ہوا تو انہیں شعر پڑھنے اسٹیج پر نہیں بلایا گیا۔
وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہاں کے لوگ ایک پاکستانی شاعر کے خلاف ہنگامہ کردیتے۔ وہ انہیں جسمانی نقصان بھی پہنچا سکتے تھے۔کشور ناہید غصے میں وہاں سے چلی آئیں۔ ظاہر ہے ان کا احتجاج بالکل صحیح تھا۔ اگر ان کا کلام نہیں سننا تھا تو انہیں بلایا ہی کیوں گیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں آکسفرڈ یو نیورسٹی پریس اور لاہور لٹریری فیسٹیول میں ہندوستان سے ہندو ادیب اور دانشور بھی شرکت کرتے ہیں اور پاکستانی باشندے ان کا پر جوش خیر مقدم کرتے ہیں۔
چلئے لاہور لٹریچر فیسٹیول نے لندن میں اپنا جشن منا کر ایک آسان راستہ نکال لیا ہے۔ اب لندن میں دونوں ملکوں کے ادیب اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے لندن والے جشن کا جو پروگرام دیکھا ہے اس میں ہندوستان کے ہندو دانشور تو نظر آتے ہیں مگر کوئی ہندوستانی مسلمان نظر نہیں آتا ۔ ہمارے خیال میں وہاں ڈاکٹر شمیم حنفی جیسے معتبر ادیبوں کو ضرور بلانا چاہئے تھا۔ وہاں عصمت چغتائی پر اگر زہرا نگاہ، آصف فرخی اور عارفہ سیدہ زہرا بات کر سکتی تھیں تو شمیم حنفی اور ان جیسے دوسرے معتبر ہندوستانی دانشور اس میں اضافہ ہی کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے یہ دانشور باہم تبادلۂ خیالات بھی کر سکتے تھے۔ چونکہ اس جشن میں تقسیم اور اس کے اثرات پر بھی بات ہو ئی اس لئے وہاں پاکستانی اور انگریز مورخوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے ساتھ کوئی ہندوستانی مسلمان تجزیہ کار بھی ہو نا چا ہئے تھا۔ حال ہی میںہندوستان کے معروف صحافی سعید نقوی کی کتاب Being the Other: Muslim in India شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں تقسیم اور اس کے بعد کے حالات کا نہایت ہی معروضی انداز میں جا ئزہ لیا گیا ہے۔ لندن کے جشن میں ہندوستان کے ہندو مورخوں کے ساتھ ان صاحب کو بھی بلایا جا سکتا تھا۔ معاف کیجئے۔ یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ اگر ہندوستان کے مسلمان ادیب پاکستان آتے ہوئے اس لئے گھبراتے ہیں کہ واپسی پر انہیں پاکستانی ایجنٹ بنادیا جا ئے گا تو کیا ہندوستان کے مسلمان صحافیوں کو یہی خطرہ نہیں ہوگا؟ لیکن ہمارا خیال ہے کہ سعید نقوی جیسے صحافی یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ بہرحال، ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں ۔ ہمیں تو خوشی یہ ہے کہ اگر پاکستان اور ہندوستان میں دونوں ملکوں کے ادیب اکٹھے نہیں ہو سکتے تو لندن میں تو ہو سکتے ہیں اور وہاں ملالہ یوسف زئی بھی تو شریک ہو سکتی ہیں۔

تازہ ترین