• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مایوسی گناہ ہے، لہٰذا آغاز ہی میں واضح کرنا لازم ہے کہ بطور بہادر، غیرت مند اور مضبوط قوم ہمیں مایوسی کے گہرے سایوں سے نئی صبح کا سورج تلاش کرنا ہے یہی ہمارے وجود وبقا کا ضامن اور مستقل سلامتی کا موجب بن سکتا ہے کیونکہ ملک کی اندرونی سیاسی و معاشی حالت اور عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی حکمت عملی تسلی بخش ہونا تو درکنار بڑی حد تک مایوس کُن ہےجس کا خمیازہ کچھ قوتوں کو نہیں بےچاری امید کی ماری پوری قوم کو بھگتنا ہے، وطن عزیز میں اس سال 28 جولائی کے اعلیٰ عدلیہ کے تاریخ ساز فیصلے نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم کی جانب سے قومی اداروں پر کئی سنگین الزامات نے بہتر ہوتے سول ملٹری تعلقات کو سن 99کی نہج پر لاکھڑا کیا ہے اور اچھے بنتے حالات کی امید کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ دشنام طرازیوں کا طویل ہوتا سفر سیاسی حالات کو بالآخر نامعلوم سمت سے گزار کر ایسی منزل پر لے آیا ہے جہاں کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ ہو کیا رہا ہے اور ہوگا کیا۔ اپوزیشن تو اپوزیشن حکومت کو بھی پتا نہیں کہ اقتدار کی پتنگ کب کٹ جائے، سچ پوچھیں تو جمہوریت کی کشتی میں بیٹھے کسی سوار نے نہیں بلکہ اس مرتبہ خود ’کیپٹن آف دی شپ‘ نے کشتی میں سوراخ کرنے میں اپنی مدد آپ کی، چار سال نظاروں کے مزے لوٹے لیکن تیرنے کا فن نہ سیکھا، اب کشتی وقت کی تندوتیز لہروں کے رحم وکرم اور ڈوبنے پر آئی تو نئے بے اختیار ملاح کے حوالے کردی جس کے ساتھی عاقبت نااندیش اور وہ خود بھی تنکے کے سہارے کی تلاش میں ہے۔
قارئین کرام گزشتہ کالم میں عباسی حکومت کو کمزور حکومت لکھنے پر مجھے بعض اہم حکومتی شخصیات کی جانب سخت تنبیہ بھجوائی گئی کہ یہ غیر جمہوری رویہ ہے اور جمہوری حکومت کا عوام میں تاثر خراب کرنے کا سبب ہے لہٰذا احتیاط کی جائے، اس پر میں مزید کچھ نہیں کہوں گا کہ آزادی اظہار کے حامی وداعی ہونے کے دعوئوں کے برعکس ہمارے ساتھیوں کا ایک ایک کر کے جو حشر اس جمہوری دور میں کیا جا رہا ہے وہ ہماری زبان بندی سے زیادہ آپ کی سبکی اور جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے، ہم عزم مصمم کے ساتھ اپنا اظہار جاری اور سچ بولنے کی ہمت کرتے رہیں گے۔
یہ امر بھی کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے کہ میاں صاحب ایک ہفتے تک سعودی عرب میں بعض برطانوی اور عربی دوستوں کی مدد اور کوششوں کے باوجود ایک اہم شخصیت سے ملاقات کا وقت نہ ملنے کے بعد اپنے پیارے وطن کے دورے پر آنے کے بجائے لندن چلے گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جناب نے بھی مشرف کی طرح عدالتوں میں حاضری سے استثنا کی درخواست دے رکھی ہے، فرق یہ ہے کہ سابق ڈکٹیٹر خود کو بیمار ظاہر کرتے ہیں اور پاکستان کے علاوہ ہر ملک کا سفر کر لیتے ہیں جبکہ میاں صاحب بیوی کی بیماری کے باعث رخصت کے خواستگار ہیں۔ جی ہاں تمام عدالتی تقاضے اور پابندیاں صرف عوام کے لئے ہوتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ بڑے میاں صاحب کے جدہ سے واپس لندن چلے جانے کے ساتھ ہی چھوٹے بھائی اور10ماہ کے مستعار وزیراعظم بھی خاموش رہنے اور آئندہ انتخابات تک صبر کرنے کی نصیحتوں کا نیا انبار لئے برطانیہ پہنچ چکے ہیں، پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میاں صاحب فیصلہ کرچکے ہیں اور امید6 واثق ہے کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی میاں صاحب بیٹی صاحبہ کی تو سنیں گے باقیوں کی گزارشات ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردیں گے۔ باخبر حلقوں کی رائے میں پریشان جمہوری حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی اہم قومی مصروفیات چھوڑ کر لاہور اور لندن آنیاں جانیاں دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ’طاقتوروں‘ نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے، طے ہوگیا ہے کہ ن لیگ کی بے اختیار حکومت چلے گی، پارٹی تقسیم ہوگی اور لیگی پیٹریاٹ گروپ بھی بنے گا اور آئندہ انتخابات کو اس کے لئے مشکل بنا دیا جائے گا، اب تو شہباز شریف بھی بڑے بھائی کی عدم حکم عدولی پر نامنظور ہو چکے ہیں؟ اس صورت حال سے بچائو شاید ممکن ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم اگر ایسا ہوا تو یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ، پارٹی کو کیوں توڑا؟
گزشتہ دو ماہ سے شہر اقتدار میں سیاسی حلقے انجانے خوف کا شکار ہیں۔ میڈیا پر متواتر نمودار ہونے والے بعض وزرا تو حکومت پر آنے والے بدترین مشکل وقت میں بھی جملہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ کئی ماضی کی طرح آئندہ بھی اقتدار میں رہنے کی حکمت عملی بنانے میں دن رات کوششوں میں غرق ہیں، ایک بات بہت واضح ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اچھا اور ٹھیک نہیں ہورہا، 2013کے انتخابات کے بعد پارلیمان میں حکومت نے جس طرح اپنی سلو اننگز کا آغاز کیا تھا عمران خان کی جماعت نے مسلسل بائونسرز اور بھرپور فیلڈنگ سے شریف حکومت کو مسلسل پریشر میں رکھا یہی وجہ تھی کہ عوامی فلاحی کاموں اور ترقیاتی منصوبوں کی رفتار مسلسل بڑھتی رہی تاہم ایمپائر کے بڑھتے کردار نے سیاسی کھیل کو ایسے رخ پر ڈال دیا ہے کہ مقتدر بیٹسمین کے ’’ریٹائرڈہٹ‘‘ ہونے کے بعد اب لگتا ہے کہ مخالف ٹیم کے ’کپتان‘ کے ایما پر نو بال پھینکنے والے بائولر کی حیثیت رکھنے والے فیلڈرز سمیت میدان سے باہر ہونے والے ہیں، شاید وہ ناپسندیدہ ہوتے جا رہے ہیں، یعنی پنجاب کا شریف گیا، سندھ کے شکاری کی باری آہی گئی ہے اور کے پی کا خان باری آنے سے پہلے ہی آئوٹ ہو جائے گا، کچھ رعایت بھی ممکن ہے، باقی رہے نام اللہ کا، پس پھر سیاسی فن کاروں کی آمدنی پر گزارا کرنے والے بعض ماہر اپنے حصے کی وصولی میں جتے نظر آئیں گے، پھر کس کے ہاتھ کیا آئے گا یہ تو پنجاب کے حلقہ این اے 120 اور کے پی کے این اے4 کے انتخابی نتائج نے کسی حد تک واضح کر ہی دیا ہے۔
دوسری طرف بیرونی وعالمی محاذ پر سفارت محض سوتنوں کی زبان درازی کے مصداق بڑھکوں اور غیر سنجیدہ رویوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، امریکہ کی جنوبی ایشیائی پالیسی پر جس گھن گرج کے ساتھ ردعمل اور جوابی حکمت عملی کا اظہار کیا گیا اور روس و چین سمیت دیگر ملکوں سے طمطراق کے ساتھ رابطہ کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ سست ہی نہیں اب اپنے انجام کو پہنچتا نظر آتا ہے، امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن کی آمد سے قبل ہی پاک افغان حدود میں ڈرون حملوں کی برسات، ان کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد پاکستان میں محض چند گھنٹے قیام نے کہانی کھول کر رکھ دی ہے، اس پر مارے شاہ مدار کہ 75انتہائی مطلوب افغان دہشت گردوں کی فہرست کی حوالگی کے ساتھ ڈومور کا مطالبہ بھی کر دیا گیا جو پاکستان کے لئے بڑی مشکل کا سبب بن رہا ہے، پاکستان کی بار بار وضاحتوں اور اپنی بھرپور قربانیوں کا تذکرہ بھی کوئی اثر نہیں دکھا رہا، ٹیلرسن کا دورے کے موقع پر یہ کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم نہ کیں تو پھرامریکہ کو دوسرا راستہ پتہ ہے جو بظاہر عباسی حکومت کی کمزوری اور لاچاری کا عکاس ہے، بعض عالمی خارجہ ودفاعی امور کے ماہرین کی رائے میں پاکستان میں اہم اداروں کی دفاع اور خارجہ امور پر کھلی تقسیم اور باہمی کھچائو عالمی سطح پر جگ ہنسائی اور مشکلات کا سبب بن رہا ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان امریکہ کی نظر میں اچھا بننے کی دوڑ بھی جاری ہے، یہی صورت حال برقرار رہی تو کسی کے ہاتھ کچھ آنے کی بجائے ملک کسی بڑے سنگین بحران کا شکار ہوسکتا ہے جس پر قابو پانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم کب تک قوم کو غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار رکھیں گے، اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ایک دوسرے کا سہارا اور طاقت بننے کی بجائے ایک دوسرے کے سامنے کھڑا ہونے اور لڑنے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں، کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ ملک کے اندر سیاسی، معاشی اور سلامتی کے استحکام سمیت تمام عالمی امور پر یک جان و زبان ہوجائیں، کیوں نا چھوٹی اور جھوٹی انا پر ضرب کاری لگا کر مصلحت پسندی اور مفادات سے بالاتر ہو جائیں، متفقہ آئین پر نفاق اور روگردانی کا سلسلہ ترک کر دیں، گومگو کی کیفیت سے خود بھی باہر آئیں اور باقی سب کو بھی نکالیں کیوں نہ مل کر اپنے وطن اور قوم کا سوچیں، جسے70برسوں میں محض خوابوں، جھوٹے وعدوں اور عہد شکنی کے سوا آج تک کچھ بھی نہیں دیا گیا۔

تازہ ترین