• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شفقت نذیر دوران گفتگو مسلسل خلاؤں میں بھٹکتے جا رہے تھے۔میں نے اگرچہ انکی طرف ٹکٹکی باندھے رکھی مگر میں انکی آنکھوں سے کسی بھی قسم کا ردعمل جاننے سے قاصر رہا. ان کے والد نذیر احمد نجار نے میرے تذبذب کو بھانپتے ہوئے انکی بات کو کاٹتے ہوئے بتایا میرا بیٹا اب خلاؤں میں گھورتے رہنے کا عادی ہوگیا ہے کیونکہ اب اسکی زندگی میں اندھیرے کی سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق شفقت کی آنکھوں کے پردے خون سے ناکارہ ہو چکے ہیں جسکی وجہ سے وہ مکمل طور پر بصارت سے محروم ہوگیاہے۔ مختلف اسپتالوں کے سینکڑوں چکّر کاٹنے کے علاوہ بھارتی شہر حیدرآباد میں جراحی کے نصف درجن ضابطوں سے گزرنے کے باوجود اب اس کی زندگی میں تاریکیوں کے سوا اور کچھ نہیں بچاہے ۔
نذیر احمد نے مجھے اپنے بیٹے کی میڈیکل ٹیسٹ اور علاج معالجے سے متعلق رپورٹس کا ایک بڑا پلندہ دکھایا جسکے مطابق اس کو آنکھوں کی بینائی سے مکمل طور محروم قرار دیا گیا ہے۔میں نذیر صاحب سے گفتگو میں مصروف تھا کہ شفقت کافی جذباتی ہو گئے اور میری طرف مخاطب ہوکر نہایت زخمی لہجے میں کہنے لگے ’اس سے بہتر تھا کہ میں مرہی گیا ہوتا‘۔ان کی ان درد بھری باتوں سے ہمارے درمیان کچھ پل کیلئے ایک ناموافق سناٹا سا چھا گیا جسکو توڑنے کیلئے میں نے چند تسلی بھرے الفاظ دہرائےاس سے انکے والد برانگیختہ ہوگئے اور وہ غصے اور یاس کے ملے جلے احساسات سے لبریز لہجے میں کہنے لگے ’ہمارا سب کچھ لٹ چکا ہے ۔مگر اس کے باوجود میں کچھ کرنے سے قاصر ہوں‘نذیر اپنے آبائی قصبے بجبھارا میں جرنیلی سڑک کے کنارےشام کو ایک ریڑھی پر کباب بیچ کر قلیل پیسوں میں اپنے عیال کا گزارہ چلاتا ہے۔اس پر اپنے بیٹے کے علاج و معالجے پر مسلسل ہونے والے بےپناہ اخراجات نے انکی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔
لگ بھگ چار ہفتے قبل شفقت سے میری ملاقات مقامی مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر ہوئی۔انکے والد ایک ہاتھ میں کاغذات اٹھائے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو سہارا دیتے ہوئے بڑے احتیاط سے چل رہے تھے۔ اسوقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ دنگے کے ایک کیس کے سلسلے میں پیشی دینے جارہے تھے۔بصارت سے محرومی کے ٹھیک گیارہ ماہ بعد اس سال آٹھ اگست کو پولیس نے ان پر نقص امن سے متعلق کئی تعزیراتی دفعات کے تحت چالان پیش کیا اور یوں انکے اور انکے گھر والوں کیلئے مصیبتوں اور کٹھنائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس ضمن میں میں نے انسانی حقوق سے وابستہ ایک کارکن سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے کہ ظلم و جبر سے متاثرین کو مختلف کیسوں میں الجھایا جائے تاکہ نہ صرف یہ کہ قانونی عمل کی خانہ پری کیلئے سرکاری زیادتی کی بابت معقول عذر تلاش کیا جائے بلکہ متاثرین کو ہی مجرم ثابت کیا جائے تاکہ انہیں سرکار کے خلاف کسی بھی قانونی چارہ جوئی سے باز رکھا جاسکے۔
9 ستمبر2017ء کو شفقت بھارتی نیم فوجی دستوں کی پیلٹ بندوقوں کا شکار ہوکر شدید زخمی ہوگئے۔ٹھیک اسی روز پولیس نے انکے خلاف ایف آئی آر درج کی جسکے مطابق وہ آتشی اسلحے سے لیس ایک پر تشدد ہجوم کا حصّہ تھے جو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہاتھا۔ پولیس کے بیان کے مطابق انھوں نے ہجوم کو قابو کرنے کیلئے ہوا میں پیلٹ فائر کئے جس سے ایک شخص زخمی ہوا۔شفقت کے سنگین زخم پولیس بیان کی تردید کرنے کیلئے کافی ہیں۔ کشمیر میں پولیس کی جانب سے دائر کئے جانے والے کافی ایف آئی آر جھوٹے ہوتے ہیں جو اکثر سیاسی دباؤ کے نتیجے میں یا ریاستی جبر کے نظام کو سہارا دینے کیلئے درج کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق شفقت کو نزدیکی سے نشانہ بنایا گیا جسکے نتیجے میں سینکڑوں پیلٹ انکے سینے، بازوؤں، ٹانگوں اور چہرے پر لگ گئے. ابھی تک درجنوں پیلٹ انکے جسم میں پھنسے ہوئے ہیں اور انکے چہرے پر زخموں کے واضح نشانات انکے ساتھ ہونے والے ظلم کا اعلان کر رہے ہیں۔شفقت کے مطابق گزشتہ سال عوامی بغاوت کے عروج پر وہ گھر سے نکل کر قصبے کےدوسری طرف جارہے تھے کہ ایک گلی کے نکڑ پر چھپے نیم فوجی اہلکار نے ان پر اچانک حملہ کرکے انکو شدید زخمی کردیا جس سے انکی دونوں آنکھیں ضائع ہوگئیں۔ وادی کشمیر کے طول و عرض میں سرکاری ظلم و جبر کا نشانہ بننے والے بیگناہوں کی ہزاروں ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ایک ماہ قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بھارتی شاخ نےکشمیر میں پیلٹ گنوں کے بےتحاشا استعمال کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں بصارت سے محروم ہونیوالے88 کشمیروں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پیلٹ گنوں کے شکار افراد نہ صرف جسمانی تشدد کا شکار ہوئے ہیں بلکہ ان میں نفسیاتی تباہی کے اثرات بھی واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔متاثرین میں طلبہ کی اکثریت اب پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے پارہی اور کئی متاثرین جو اپنے کنبوں کی کفالت کرتے تھے اب کام کرنے کے لائق نہیں رہے۔
بینائی سے محروم ہونے سے قبل بائیس سالہ شفقت نذیر گھر چلانے میں اپنے والد کی مدد کرنے کیلئے بحیثیت سیلزمین کام کرتے تھے۔اسکے علاوہ وہ بارہویں جماعت کی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھے مگر ایک پرائیویٹ طالبعلم کی حیثیت سے کیونکہ وہ اپنے ذاتی حالات کی وجہ سے کام سے حاصل شدہ کمائی کو ہاتھ سے جانے دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے مگراپنی قلیل آمدنی اور سخت حالات کے باوجود وہ پر عزم بھی تھے اور پر امید بھی مگر اب بدلتے حالت میں انکے پاس بقول انکے ’اب اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے‘۔یہ کہتے ہوئے شفقت دبیز اداسیوں میں نہ جانے کہاں کھو گئے۔ اب تو نہ صرف اسکی نوکری چلی گئی ہے بلکہ وہ بارہویں جماعت کا امتحان دینے سے بھی قاصر ہے۔ انکی زندگی تھم گئی ہے مگر اس کے گھر والوں کو روز ایک نئی قیامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی رپورٹ میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کے طے شدہ بین الاقوامی معیار کی پاسداری کرتے ہوئے پیلٹ گنوں کے استعمال سے فوری اور مکمل طور پر گریز کریں۔مگر صوبے میں محبوبہ مفتی کی سرکار نے حال ہی میں ریاستی ہائی کورٹ میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ احتجاج کرنے والے عوام پر پیلٹ گنوں سے حملے کرنا غیرآئینی نہیں ہے،مزیدبراں حکومت نے عدالت عالیہ سے یہ بھی گزارش کی کہ احتجاج کرنے والوں سے نمٹنےکا طریقہ کار طےکرنےکااختیار صرف حکومت ہی کو ہے ۔ محبوبہ مفتی سرکار کی اس ہٹ دھرمی اور بےحس طرزعمل سے کسی خیر کے برآمد ہونے کی کوئی توقع رکھنا تو عبث ہی ہے بلکہ اس سے بےنور آنکھوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بدستور جاری رہے گا جو مزید اندھیرے بڑھاتا رہے گا۔اس پر مستزاد یہ کہ حال ہی میں مفتی نے ایک پریس بیان میں کشمیر میں’امن کی کونپلیں پھوٹنے‘ کا دعوی کردیا۔اس قسم کے بیانات کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں جس سے حالات میں بہتری آنے کی امید رکھنا کسی مجذوب کی بڑ کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

تازہ ترین