• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(بسلسلہ میں تے منو بھائی)(3)
میں نے یہ سٹیج ڈرامہ لکھا اور اس کی ایک کاپی حنیف رامے صاحب کو دی جو اس وقت پنجاب کے چیف منسٹر تھے۔ حنیف رامے صاحب نے ایک بہت ہی خوبصورت اور فکر افروز تبصرہ لکھا جو میں نے ڈرامے کے بروشر کے طور پر امروز پریس سے چھپوایا۔ محمد حنیف رامے صاحب نے اس کھیل کا تعارف ان الفاظ سے شروع کیا تھا’’منو بھائی اپنے قاری پر بالکل اس انداز میں حملہ آور ہوتا ہے جیسے کوئی انقلابی گوریلا دشمن پر شب خون مارتا ہے۔ چپکے سے کسی ناگہانی بلا کی طرح وہ جھپٹتا ہے اور سیدھا دل پر پنجہ گاڑ دیتا ہے۔ ایک عرصے سے میری یہ حالت ہے کہ میں اس کی تحریر میں جھانکنے سے پہلے اسی طرح لرز اٹھتا ہوں جیسے مجھے اپنے ضمیر میں اترنے کے لئے کہہ دیا جائے ،جہاں قدم قدم پر پھانسیاں گھڑی ہوں اور ہر پھانسی پر میری لاش لٹکی ہوئی ہو۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منو بھائی کی ادبی کاوش کا سامنا کرنا پڑا ہو اور میں لہولہان نہ ہوا ہوں، لیکن’’جلوس‘‘ نے تو مجھے ہی نہیں میرے سارے بھائی بندوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ساری پیپلز پارٹی کی نبض پر کسی سفاک ستارہ شناس نے ہاتھ رکھ دیا ہے اور مستقبل کی آنکھوں میں جھانک کر وہ ہماری تقدیر کو ہانک رہا ہے۔ منو بھائی کا کھیل’’جلوس‘‘ کیا ہے ہماری جدوجہد کی ایک درد انگیز جھلک ہے، اس جھلک کا تعلق بظاہر ماضی سے ہے لیکن یہ آنے والے وقت کے دھند لکوں کو چیر کرغیب کی خبر لانے کی ایک جسارت ہے اور غیب وہ حقیقت ہے جس سے ا نسان ہمیشہ ڈرتا چلا آیا ہے‘‘۔محمد حنیف رامے صاحب کا تعارف ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے کہ ’’درد تو بہت ہوگا لیکن دل سے یہ دعا نکلی ہی چلی جاتی ہے کہ منو بھائی بار بار تقدیر کا تازیانہ اٹھائے اور اتنا پیٹے اتنا پیٹے کہ خون کا دریا پھوٹ نکلے، جو میری اور میرے بھائی بندوں کی ساری خواہشوں ، سارے مفادات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے‘‘۔جب ڈرامے کو اسٹیج کرنے کا مرحلہ آیا تو خورشید حسن میر صاحب نے پوچھا کہ یہ ڈرامہ ا سٹیج کون کرسکے گا۔ میں نے یاور حیات کا نام لیا اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں اسلم اظہر منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی کارپوریشن سے بات کرلیں گے۔ خورشید حسن میر نے ٹیلی فون پر بھٹو صاحب کو بتایا کہ منو بھائی نے ڈرامہ لکھ دیا ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا انہیں اپنے ساتھ لے کر آجائو۔(Bring him along)ہم دونوں بذریعہ پی آئی اے راولپنڈی اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دفتر میں پہنچے۔ بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا’’ڈرامہ ہوگیا‘‘۔ میں نے کہا’’نہیں سر!ابھی ہوا نہیں لکھا گیا ہے‘‘ بھٹو صاحب نے فرمایا’’پڑھ کے سنائو‘‘۔Read out to meمیں نے نہایت ادب سے پڑھنا شروع کیا اور بھٹو صاحب کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا جلوس ہے، چوتھے سین پر پہنچا تو اس میں پیپلز پارٹی کے بارے میں کچھ ایسی باتیں بھی تھیں جن کو سن کر خورشید رضا میر کے ماتھے اور گردن پر پسینہ آگیا، مگر بھٹو صاحب نے کہا کہ’’یہ جلوس ختم کیسے ہوتا ہے؟‘‘ عرض کیا’’جلوس انتشار اور بے چارگی میں ختم ہوتا ہے‘‘۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ’’اگر یہ پیپلز پارٹی کا جلوس ہے تو انتشار میں کیسے ختم ہوسکتا ہے؟‘‘ عرض کیا ’’میرے ڈرامے میں ایسے ہی ختم ہوتا ہے، جہاں پیپلز پارٹی اپنے انتخابی منشور اور لوگوں کی توقعات کے خلاف عمل کرتی ہے‘‘۔اس کھیل میں ایک ایسا جلوس دکھایا گیا تھا جو جبرو استحصال کی چھائونی فتح کرنے کے لئے نکلتا ہے۔ انتظامیہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس جلوس کو طاقت کے استعمال کے بغیر منتشر کیا جائے اور کسی صورت چھائونی کی حدود میں داخل ہونے نہ دیا جائے۔ انتظامیہ بہت سے حربے آزماتی ہے مگر جلوس منتشر نہیں ہوتا۔ آخری حربہ یہ لگایا جاتا ہے کہ اس جلوس کا ’’سمتوں کا شعور‘‘(Sense of Direction ) خراب کردیا جائے۔ یہ حربہ کامیاب رہتا ہے اور جلوس طاقت کے استعمال کے بغیر ہی منتشر ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین