• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ایک سفر کا نام ہے اور اس سفر میں، میں بھی ایک مسافر کی مانند چل رہا ہوں۔ مسافرت میں بلندی و پستی، گرنا اٹھنا اور رکنا چلنا سفر کا حصہ ہوتا ہے اور اس ’’تغیر‘‘ کے لئے مسافر کو ہمیشہ ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ ہماری سیاست ہر دن بدل رہی ہے اور ہر روز طلوع ہونے والا سورج کوئی نئی خبر اور پیش رفت لاتا ہے۔ سیاست میں بھی زندگی کی مانند ہر لمحہ تغیرات، طوفان، آندھیاں، پڑائو اور منزلیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ کبھی انسان اس وقت پھسل کر دہائیوں پیچھے چلا جاتا ہے جب منزل دو چار ہاتھ کےفاصلے پر ہوتی ہے اور کبھی کبھی مقدر کسی کو پچھلی صف سے اٹھا کر کرسی ٔ صدارت اور کرسی ٔ اقتدار پر بٹھا دیتاہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں کچھ لکھنا قدر ےمشکل کام ہوتا ہے۔ پتا نہیں ان لفظوں کے چھپنے تک کوئی بنیادی تبدیلیاںرونما نہ ہوچکی ہوں اگرچہ میری نگاہ بصیرت کہتی ہے کہ اتنی جلدی نہیں۔ بنیادی تبدیلیاں آنے میں کچھ وقت لیں گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تشریف لانے میں ناکام رہیں کیونکہ میں زندگی بھر منصوبے بازوں کے منصوبے کبھی کامیاب اورکبھی ناکام ہوتے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔ کالم کے تنگ دامن کے باوجود میں آج دو اہم ایشوز پر اپنے نقطہ ٔ نظر کااظہار کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کا متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا واویلا ایک دم بلند آہنگ ہو گیا ہے جبکہ میں اس کا ذکر 2010سے سن رہا ہوں۔ میں نے 2011میںاسی کالم میں محترم و مکرم سرفراز شاہ صاحب جیسی روحانی شخصیت کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستان میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت دیکھ رہے ہیں جو چند برس رہے گی اورکرپشن کے گند کو صاف کرنے کے علاوہ معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالے گی۔ دبی دبی افواہیں اس تمام عرصے میں اُڑتی رہیں۔ میں خاموشی سے سنتارہا لیکن دل نے ہمیشہ کہا ایسا ہونا مشکل ہے۔ میں نے زندگی بھر سیاست کوقریب سے دیکھا ہے، خود بھی ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور پھر عمربھر پاکستان کی تاریخ و سیاست کی طالب علمی میں گزاری ہے، اسے پڑھایابھی ہے اور اس موضوع پر ملکی و بین الاقوامی رسائل میں لکھا بھی ہے۔ میری ذاتی رائے میں جمہوری عمل کو کسی نہ کسی صورت چلتا رہنا چاہئے، سیاستدانوں کو قومی وسائل حل کرنے کا موقع ملنا چاہئے، جمہوری اداروں کومضبوط تر بنانا چاہئے، پارلیمنٹ کو قومی زندگی میں اپنا کردار موثر انداز سے سرانجام دینا چاہئے، انتخابات کے ذریعے عوام کو قومی پاوراسٹرکچر اور اقتدار کے دھارے میں احساس شرکت جاری وساری رہنا چاہئے۔ اسی سے رائے عامہ بیدار اورپختہ ہوگی اور اچھی لیڈرشپ کے انتخاب کا شعور پیدا ہوگا۔ جمہوری عمل عالمی تاریخ کے تناظر میں انتہائی طویل سفر ہوتا ہے اور یہ تب ہی منزل مراد پر پہنچتا ہے جب اسے آگے بڑھنے کے آزادانہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ فی الحال تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں کہ ہماری فریاد سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے اور سارے فیصلے مقتدر قوتیں ہی نہیں کرتیں، کچھ فیصلے آسمانوں سے بھی اترتے ہیں اور زمینی اسباب کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ اب جگر تھام کے بیٹھو کہ میری باری آئی۔ میں مانتاہوں کہ روشن خیال، سیکولر، اینٹی روحانیت لابی ایسی باتوں سے الرجک ہے کیونکہ بدقسمتی سے انہوں نے مطالعہ تو کیا ہے لیکن ان کا دامن کسی ایسے تجربے سے خالی ہے جسے ہم سپرنیچرل یا آسمانی خبر یا روحانی تجربہ کہتے ہیں۔ میں ایک گناہگار انسان ہوں لیکن مجھے بارہا ایسے تجربات کے مشاہدے کا اعزازحاصل ہوا ہے اس لئے میں کیوں نہ آپ سے شیئر کروں۔ جھوٹ بول کر قبر میں انگارے ڈالنا پرلے درجے کی حماقت ہے اور الحمد للہ کہ میرا کوئی ایجنڈا، مقصد اور محرک نہیں۔ لکھتے لکھتے جی چاہا آپ سے یہ تجربہ شیئر کرتا چلوں۔ 2013کے انتخابات ہوچکے تھے اور میاں نواز شریف کا طوطی چاروں سُو بول رہا تھا۔ ان کی مقبولیت اور پذیرائی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ ابھی انہوں نے وزارت ِ عظمیٰ کا تاج نہیںپہنا تھا لیکن وہ بظاہر وزارت ِ عظمیٰ سے بھی زیادہ مضبوط نظر آ رہے تھے کہ تیسری بار وزارت عظمیٰ ان کے صحن میں اتری تھی۔ میرے ایک محترم لیکن گمنام دوست ہیں ملک نذیر جو زندگی بھر انگلش لٹریچر پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود سیکولر ذہن نہیں رکھتے۔ ان کی ملاقات ایک ولی ٔ کامل سے رہتی تھی جو وصال فرما چکے۔ مجھے کبھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ جب میاں نواز شریف اقتدارکے ستاروں پرقدم رکھ رہے تھے تو ایک دن پروفیسر نذیر ملک صاحب کی ان ولی ٔ کامل سے ملاقات ہوئی۔ ملک صاحب میرے خیرخواہ اور ہمدردمہربان ہیں۔ رہ نہ سکے اور بزرگوں سے مودبانہ گزارش کی کہ ہمارے دوست ڈاکٹر صفدر محمودکو جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب سے تعلقات کا الزام لگا کر چارسال او ایس ڈی بنائے رکھا، ان کا کیریئر تباہ ہو گیا۔ آج کل ریٹائرڈزندگی گزار رہےہیں۔ دعا کیجئے انہیں کوئی اچھی جاب مل جائے۔ بزرگوں نے جو جواب دیا وہ میرے ذہن پرپتھر کی لکیر کی مانند کندہ ہے۔ انہو ںنے فوراً کہا ’’میاں صاحبان تو ذلیل و خوار ہوں گے ہی، اپنے دوست کوکیوںذلیل کرواتے ہو۔ اسے کہو دُبکا بیٹھا رہے۔‘‘ اگلی صبح ملک صاحب نے فون کرکے جب یہ بات بتائی تو میں بالکل یقین نہ کرسکا کیونکہ میں ظاہر بیں ہوں۔ مطلب یہ کہ دوستو! کچھ ہوتی ہے مقدر کی مار، خدائی مار، جس سے انسان بچ نہیں سکتا۔ آزمائش اور شے ہے خدائی مار دوسری شے ہے۔ انہیں آپس میں خلط ملط نہ کریں۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
رہی لندن میں مسلم لیگ (ن) کے بڑوں کی ملاقات..... خدا جانے ان میں صحیح معنوں میں بڑے کتنے ہیں؟ اختصار سے کام لیتے ہوئے میاں صاحب کی حکمت ِ عملی بارے بھی کچھ لکھنا واجب ہے۔ میں ذاتی حوالے سے میاں صاحب کی بعض محبتوں کا مقروض بھی ہوں اگرچہ یہ دو ڈھائی دہائی قبل کا قصہ ہے۔ میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ جو انسان کسی انسان کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکرگزار نہیں ہوتا۔ میں تھوڑا تھوڑا ان کے مزاج سے بھی واقف ہوں اور مجھے احساس ہے کہ وہ چونکہ خود مضبوط نظریاتی انسان نہیں، انہیں مطالعے اور کتابی غور و فکر کا شغف نہیں اس لئے وہ اپنے ایڈوائزر اور قرب ِ سلطانی کے ماہرین کےزیراثر رہتے ہیں۔ کمیونسٹ ہو، سوشلسٹ ہو، لادین ہو، دائیں بازو کا ہو یا دینی و مذہبی شخصیت ہو جب تک اس کے نظریات کی بنیاد گہرے مطالعے پر استوار نہ ہو وہ پھسلتا ہی رہتاہے اور دوسروں کے زیراثر رہتاہے۔ بلاشبہ میاں صاحب کو اس نوبت تک لانے میںان کے انہی مشیروںکا بھی حصہ ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کامیاب لیڈرشپ کے لئے دانش، حکمت اور توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بحران کے دوران لیڈر کو تنی ہوئی رسی پر مضبوطی اورتوازن اور سب سے بڑھ کر استقامت سے چلنا پڑتا ہے۔ جو قائدین اپنے نظریات اور اعلیٰ قومی مقاصد کے لئے قربانی دیتے ہیں وہ تاریخ میں بھی اور سیاست میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ سمجھوتے کرنے والے، پکی پکائی کھیر کھانے والے اور مقتدر قوتوں کی غلامی کرنےوالے وقت کے دھارے میں خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتے ہیں۔ اصولوں پر ڈٹے رہنے کے ساتھ سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں،لچک بھی دکھانا پڑتی ہے لیکن اصول کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے۔ میاں صاحب موجودہ سیاست کے اہم ترین کھلاڑی ہیں اور بڑاووٹ بنک رکھتے ہیں۔ وہ ایک بار 2000میں سمجھوتہ کرچکے۔ قوم نے پھر بھی ان کی پذیرائی کی۔ بار بار سمجھوتہ قائدانہ کردار کی نفی کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان کے مائنس ہونے سےکمزور ہوگی۔ فی الحال وہ مسلم لیگ ن کےقانونی صدر ہیں اور انہیں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنا چاہئے اور اسی پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ تصادم سے زیادہ حکمت، دانش اور توازن کی ضرورت ہے۔ اگروہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری نظام یا ملکی مستقبل کو خطرات لاحق ہیں تو اصولوں پر ڈٹے رہیں اور قومی مفاد کےلئے قربانی دیں۔ جیل لیڈر کو بڑا لیڈر بناتی ہے اور ووٹوں کی بارش لاتی ہے۔ جہاںاسٹینڈ لینے کی بجائے حکمت سے راستہ بنے وہاںیہی راہ اپنائی جانی چاہئے لیکن یقین رکھئے کہ اس امتحان میں کامیابی کے لئے استقامت اور بہادری ضروری اثاثے ہیں۔ کالم ہوا ختم باقی پھر انشاء اللہ لیکن اصولی جنگ اور اقتدار کی جنگ میں فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں۔

تازہ ترین