• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی وہ مسکراہٹ کہیں روٹھ گئی ہے۔ جس نے جلاوطنی کے دنوں میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ مسکراہٹ کی گمشدگی کا یہ مقدمہ خاصا غور طلب ہے۔ یقیناً پس منظر میں کلثوم نواز کی بیماری اور نااہلی کا پریشان کن تحفہ اہم ترین کردار ہیں۔ ویسے تو جب وہ وزیر اعظم تھے انہوں نے مسکرانا اس وقت بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک سو چھبیس دن تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں نے مسکرانے نہیں دیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب کسی صحافی نے مریم نواز سے وزیر اعظم کی مسکراہٹ کی گمشدگی پر سوال کیا تھا تو انہوں نے اس اداسی کا سبب صحت کی خرابی کو قرار دیا تھا یعنی الزام بیچارے ‘‘فلو‘‘ پر لگایا گیا۔ ویسے ہر وہ وزیراعظم جو اپنی جبینِ ناز، کبھی لاڑکانہ کبھی نائن زیرو، کبھی چکلالہ گرائونڈ کے سامنے جھکانے پر مجبور ہو وہ کیسے مسکرا سکتا ہے۔ لندن میں آصف علی زرداری اور کراچی کے آخری بادشاہ سے ملاقاتوں کی تازہ ترین کوششیں شاید اسی مسکراہٹ کی واپسی کے لئے جاری و ساری ہیں۔ مجھے یاد ہے پہلے بھی کسی مجبوری کے عالم میں نواز شریف نے اپنے سینے پر متحدہ قومی موومنٹ کا تمغۂ محبت سجا لیا تھا۔ اسے سینے سے لگا لیا تھا جس سے کبھی ہاتھ ملانے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ نواز شریف صدارتی انتخابات میں ممنون حسین کی فتح کیلئے ’’متحدہ محبت لیگ‘‘ کا قیام عمل میں لائے ہیں مگر یہ تو سادہ لوح عوام بھی جانتے تھے کہ وہ متحدہ کے ووٹوں کے بغیر بھی صدر بن سکتے تھے۔ اصل سیکرٹ کیا تھا اُس تلک تو ابھی خود نون لیگ کے اہم ترین لوگ بھی نہیں پہنچ پائے۔ اس وقت بیچارے رانا ثنااللہ پرانا پارٹی پالیسی بیان دے کر خاصے شرمندہ ہو ئے تھے اور لوگوں سے پوچھتے پھرتے کہ وہ کونسی بات ہے جس نے نواز شریف کو بھائی کا بھائی بنا دیاہے۔
کل رات ذراسی مسکراہٹ واپس آئی جب نواز شریف اور آصف علی زردارری کی ملاقات کا دونوں طرف سے اصولی فیصلہ ہوا کہ یہ ہرحال میں ہونی ہے۔ ابھی تک صاحبانِ مذاکرات اس بات پر نہیں پہنچ سکے کہ کیا یہ ملاقات خفیہ ہو یا غیرخفیہ۔ آصف علی زرداری ملاقات کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں جب کہ نواز شریف غیر خفیہ ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ وقت سے پہلے انتخابات پر بھی دونوں میں اختلاف موجود ہے۔ یہ ساری ملاقاتیں دو سال کی عبوری حکومت کو روکنے کے لئے شروع ہو رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں تحریک انصاف سے بھی رابطہ کیا جائے۔
میرے نزدیک نواز شریف کی مسکراہٹ کے قتل ہونے کے اسباب اُس دن پیدا ہوئے تھے جب ان کے دل میں امن کی آشا کا چراغ روشن ہوا تھا۔ وہ ابھی تک بھارت کے ساتھ دوستی کی تمنا سے دستبردار نہیں ہوئے اور اسی افق سے صبحِ پاکستان نکھرتی ہوئی دیکھتے ہیں جبکہ انہیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ معاملہ اب اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ گزشتہ دنوں درِ رسول ﷺپر اپنی والدہ کے ساتھ رو رو کے دعا مانگنے کے بعد بھی انہوں نے پھر شاید کسی سے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے بہتر تعلقات دونوں ممالک کیلئے ناگزیر ہیں۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا اس سلسلے میں ان کی مسکراہٹ کا سخت دشمن ہے۔ کوئی بات ہو نہ ہو بھارتی میڈیا پر کہا جا رہا ہوتا ہے کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ یہ فاختہ کے لہو میں لتھڑے معاملات بھی نواز شریف کی مسکراہٹ کے جانی دشمن رہے ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آ صف نے بھی امریکہ میں یہی کہا کہ نواز شریف کو اس لئے نااہل کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مراسم چاہتے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اداسی کا سبب کوئی اور بھی ہے۔ یہ خیال بھی موجود ہے کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف نے خلیجی ملک کی وساطت سے امریکہ کے ساتھ بھی کچھ وعدے وعید کئے تھے جنہیں پورا کرنا دورانِ اقتدار ان کیلئے ممکن نہیں تھا اور امریکہ چاہتا ہے کہ فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے جن میں سب سے پہلا وعدہ گوادر کے متعلق تھا۔ گوادر چونکہ پاکستان کیلئے نئی زندگی کی مثال تھا سو سابق وزیراعظم نے قربانی دی اور گوادر کے لئے دونوں کو ناراض کرلیا اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ لوگ کہہ رہے ہیں امریکی وزیر خارجہ نے واپسی سے تھوڑی دیر پہلے ایک اہم شخصیت سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
نواز شریف کی مسکراہٹ پر ایک تازیانہ ’’مسئلہ پرویز مشرف‘‘ بھی رہا ہے۔ چاہنے کے باوجود وہ ان کے خلاف کوئی واضح قدم نہیں اٹھا سکے۔ شروع شروع میں خواجہ آصف نے اسمبلی میں جو فوجی حکمرانوں کے خلاف تقریر کی تھی وہ کسی اور سمت میں جانے کی پیشگوئی کررہی تھی مگر کسی مجبوری نے نواز شریف کو کسی اور سمت بھیج دیا تھا۔
باڈی لینگویج سمجھنے والے کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم ابھی تک تذبذب کے عالم میں ہیں۔ شاید ابھی تک اہم فیصلے ان کیلئے خاصے دشوار گزار ثابت ہو رہے ہیں۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان ’’تختِ لاہور‘‘ کےلئے جو جنگ جاری ہے، اسے کم تو کیا گیا ہے مگر حل نہیں نکل سکا۔ نون لیگ کے کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے بعد وزارتِ عظمی کے حقدار شہباز شریف تھے۔ کارکن مسلسل یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی سے اس فیصلے کی کیا ضرورت ہے کہ آئندہ انتخابات کے ہر پوسٹر پر نواز شریف کی تصویر لازمی قرار دے دی گئی ہے جو پاکستانی آئین کے مطابق غیرقانونی ہے۔ انہیں انتخابات میں نواز شریف کی تصویریں لگانے کے لئے ایک اور آئینی ترمیم کرنا پڑے گی۔ کیا شہباز شریف کی تصویر سے کام نہیں چل سکتا تھا۔ خبر یہ بھی ہے کہ پرسوں جب شہباز شریف لندن پہنچے تو نواز شریف اُن پر بہت برسے۔ اس کی وجہ مریم نواز کی لگائی ہوئی شکایتیں تھیں اور اس کی وجہ بیورو کریسی کا رویہ بنا جنہوں نے وفاق اور پنجاب دونوں جگہوں پر حکومتی احکامات سے صرف ِ نظر کرنا شروع کردیا ہے۔ اگرچہ شہباز شریف اس معاملے میں بہت سخت گیر واقع ہوئے ہیں مگر ان کے بھی بہت سے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔
دوسری طرف عمران خان ہیں جو پھر عوامی مقبولیت کی آخری حد کو چھو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میانوالی میں ان کا جلسہ تھا، یقین کیجئے یہ جلسہ اُس جلسے سے بھی بڑا تھا جو دو ہزار تیرہ انتخابات کے دوران میانوالی کا سب سے بڑا جلسہ ہوا تھا وہ بھی امجد علی خان نے کرایا تھا۔
بہرحال ابھی تک نواز شریف روٹھی ہوئی رُت کو نہیں منا سکے۔ کوئی امید کی کرن، کوئی چراغ کوئی روشنی کا نقطہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ بے شک یہ ساری باتیں مسکراہٹ چھین لینے والی ہیں۔ میرے خیال میں مسکراہٹ کے خاتمے کے پیچھے اصل مسئلہ تو وہ لوگ رہے ہیں جو انہیں ہمیشہ مشورہ دیتے ہیں ’’شیر کی ایک دن کی حکومت گیدڑ کی سو سالہ حکومت سے بہتر ہے‘‘

تازہ ترین