• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اقوام کی ترقی کا راز حصولِ علم میں پنہاں رہاہے۔ماضی کے جھروکے اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مختلف زمانوںاور اوقات میں نوجوانوں نے علم حاصل کرنے کے لئے نامساعد حالات کے باوجود ہزاروں میلوں کے سفر طے کئے ، شاید اِس کے پیچھے وہ فرمان کار فرما ہو جس میں کہا گیا تھاکہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے ۔امام شافعی ،امام بخاری ، ابن بطوطہ ،کولمبس ،واسکوڈے گاما، ابن رُشد ،عباس ابن فرناس اور اِن جیسے ہزاروں نام اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔دورِ حاضر میں علم کا منبع یورپ کے تعلیمی اداروں میں سمٹا ہوا ہے ، آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے تک علم کے خزانے اسپین سمیت دوسرے عرب ممالک میں ملتے تھے اور کئی ممالک کا سفر طے کرکے نوجوان تعلیم حاصل کرنےا سپین کے مختلف شہروں میں آتے تھے ۔اب یہ وقت ہے کہ کئی ممالک یورپ سے فارغ التحصیل افراد کو اپنے اداروں کی اہم ذمہ داریاں سونپتے ہیں ۔پاکستانی کمیونٹی کی بہت بڑی تعداد مغربی ممالک میں مقیم ہے ، اِن ممالک میں آنے والے پاکستانیوں نے سخت محنت کرکے اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم کیا ، اربوں ڈالرز سالانہ کا پاکستان بھیجا جانے والا زر مبادلہ اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستانی قوم دیار غیر میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے ۔پاکستان سے یورپی ممالک کی جانب آکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا مستقبل تابناک بنانے کے سپنے آنکھوں میں سجائے پاکستانی وطن عزیز سے خالی ہاتھ آنے کے باوجود بزنس ٹائیکون بنے اور مقامی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر مغربی پارلیمنٹ کے ممبرز بھی بنے ۔پاکستانی کمیونٹی نے رفتہ رفتہ اپنی فیملیز کو بھی مغرب میں آباد کر لیا ۔اِس روشن پہلو کے ساتھ ساتھ ایک تاریک پہلو ایسا بھی ہے جس کی جانب یا تو ہماری کمیونٹی کا دھیان نہیں جا رہا یا پھر ہم اُس جانب خوددیکھنا نہیں چاہتے ؟ کیونکہ پاکستانی کمیونٹی ابھی تک اِس تاریک پہلو کا ادراک نہیں کر سکی ، یورپ ممالک میں ہر طرح کی معاشی خوش حالی کے باوجود بچوں کو مغرب کے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کا جذبہ پاکستانیوں میں نا ہونے کے برابر ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے ۔اسپین میں ہی اگر ہم نظر دوڑائیں تو والدین کی زیادہ تعداد میٹرک پاس کرنے کے بعد اپنے بچوں کو نوکری کرنے کی ترغیب دیتی نظر آتی ہے اور ساتھ ساتھ بیٹیوں کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں اِس نازک معاملے کی دوڑ میں معاشی طور پر مضبوط پاکستانی والدین سب سے آگے ہیں جبکہ اِس عمل کے معاشرتی اثرات نہایت نا خوشگوار ہیں ۔پاکستان میں رہنے والے طالب علم یورپ کی یونیورسٹیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی حسرت دل میں لئے بیٹھے ہیں وہ سخت محنت ،ا سکالر شپ ، فیملی کی بچت یا کسی جائیداد کی قربانی دے کر چاہتے ہیں کہ یورپ سے تعلیم حاصل کی جائے دوسری طرف جو لوگ یورپی ممالک میں اپنی فیملیز سمیت رہ رہے ہیں اُن کو یورپی تعلیم کی اِس نعمت سے فائدہ اُٹھانے کا شوق نہیں ہے ۔یورپ میں مقیم بچوں کو تعلیم کے لئے فیسوں میں خاص رعایت دی جاتی ہے اور مختلف بینک تعلیمی قرض حسنہ بھی فراہم کرتے ہیں بظاہر دیکھا جائے تو پاکستانی فیملی پر اِس کامعاشی بوجھ نہیں پڑتا ، مگر اِس کے باوجود تعلیمی سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا ۔اسپین کےا سکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن یونیورسٹیز میں چند طالب علم ہی تعلیم حاصل کرنے پہنچتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بچوں کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اسکول کی تعلیم تک ہمارے وطن عزیز کے بچوں کے رزلٹ بہت بہترین ہوتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ وہ کالجز اور یونیورسٹیز میںپڑھنا چاہتے ہیں لیکن پاکستانی والدین پاکستان میں اپنے شریکوں کو دکھانے کے لئے دولت اکھٹی کرنے کی ہوس میں اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل تباہ کر دیتے ہیں اور اُوپر سے ستم ظریفی یہ کہ والدین اپنے اِس فیصلے کو مکمل طور پر دُرست سمجھتے ہیں ۔یورپی ممالک میں مقیم والدین کی اِس سوچ کو بدلنے کے لئے اہل علم و دانش اور فلاح و بہبود کی تنظیمات کے نمائندگان کو آگے آکر اپنا کردار نبھانا پڑے گا اور معاشرے کی دوسری اکائیاں جن میں رشتہ دار، عزیز و اقارب ، سوشل ورکرز اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کو اِس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی طرف آئیں اور اُن کی سوچ کا دھارا تبدیل ہو سکے ، اِ س طرح پاکستانی قوم کی نمائندگی اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے ہاتھ میں منتقل ہو جائے گی جس سے قوم کا سر فخر سے بلند ہوگا ، یورپی ممالک میں بچوں اور بچیوں کی تفریق کئے بغیر انہیں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی راہ ہموار کرنا ملک و قوم کی ایسی خدمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔اِس حوالے سے اگر والدین کا شعور اُجاگر ہو جائے تو ہم اپنی منزل جلد حاصل کر سکتے ہیں ۔قدرت نے ہم پر کرم کیا ، جو پاکستانی بچے علم کی پیاس رکھتے تھے انہیں قدرت نے علم کے خزانوں میں پہنچا دیا اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کو علم کے خزانوں سے فیض یاب ہونے میںاُن کی مدد کریں ۔پاکستانی والدین کو چاہئے کہ وہ خود محنت مزدوری کریں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں ،جو تعلیمی کمی والدین میں رہ گئی ہے اُس کو پورا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو تعلیم یافتہ بنائیں ۔یورپ میں مقیم بچے جب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونگے تو وہ مقامی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نوکریاں کرکے اپنے والدین کا ہاتھ بہتر انداز میں بٹا سکیں گے ، اِس سے نہ صرف والدین کا معاشی بوجھ ہلکا ہوگا بلکہ مقامی کمیونٹی اور مقامی اداروں کی وہ جھجھک اور خوف بھی کم ہوگا جو انہیں ہم سے دُور رکھے ہوئے ہے ۔ہمارے بچے اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیز کے تعلیمی اور کھیلوں کے میدانوں میں مقامی بچوں کے ساتھ مل کر اپنی مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرکے مسلمانوں پر لگنے والے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے داغ دھو سکتے ہیں ، مقامی کلچر سے آشنائی، زبان پر عبور اور اخلاقیات کا سبق یاد کرکے دوسری اقوام کے دلوں میں گھر بنانے کے لئے ہمارے بچوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ۔

تازہ ترین