• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر شخص اپنے اپنے فکری و رومانی پس منظر کے مطابق سوچتا ہے ۔مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ملک میںمارشل لاء بھی نہیں کوئی غیر سیاسی حکومت بھی برسراقتدار نہیں اور اس کے باوجود احتساب کا وسیع و عریض عمل شروع ہو چکا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید وسعت آتی چلی جائے گی۔آج چودھری برادران کا دہائیوں سے واجب احتساب کا کھاتہ کھلا ہے کل پی پی پی کی باری ہے ، پرسوں کرپٹ اور لٹیرے بیوروکریٹس، سابق فوجی افسران، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرنے والے صنعت کاروں اور بزنس مینوں کی حاضری ہو گی۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس احتساب کا آغاز اس پارٹی سے ہوا ہے جو برسر اقتدار ہے، اس طاقتور ترین حکمران سے ہوا ہے جسے آئین وزیراعظم کہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کا حاضر سروس وزیرخزانہ اپنے تمام تر مالی کارناموں کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کی بھی اسکرینگ ہو رہی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ ایک آدھ پر نااہلی کا گُرز بھی گرے لیکن اس سارے تناظر میں کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ احتساب کی پہلی کڑی نے طاقتور ترین حکمران کو اقتدار کے دودھ سے مکھی کی مانند نکال باہر کیا ہے اور جو شخص کل تک ملکی و قومی مقدر تھامے بیٹھا تھا جس کے ہاتھوں میں ملک کے مستقبل کا مقدر تشکیل پا رہا تھا آج عدالتوں میں دربدر ہو رہا ہے اور گرفتاری کی ہتھ کڑیوں سے بچنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے ۔ذرا غور کیجئے کہ کس کس کے وارنٹ آف گرفتاری، قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت جاری ہو رہے ہیں کس کس کے اثاثے منجمد ہوئے ہیں، کس کس کے بچوں کو احتسابی جال میں پھنسایا گیا ہے اور کس کس پر ’’مفرور‘‘ کا لیبل لگا ہے۔کون جانے اگر یہ انتہائی بلند درجہ معززین خود عدالتوں میں تشریف نہیں لاتے اور الزامات کو غلط ثابت نہیں کرتے تو ان میں سے کتنوں کو جیل جانا پڑے،عیش وعشرت کی ناقابل تصور زندگی گزارنے والوں کو جیل کے سرد اور بدبودار کمروں میں سونا پڑے جہاں عام طور پر چارپائی بھی میسر نہیں ہوتی۔کتنے آسمانوں پر اڑنے والوں اور دولت و عظمت کے ستاروں پر چلنے والوں کے خلاف ریڈوارنٹ جاری ہوں اور بدنام زمانہ انٹرپول انہیں گرفتار کرنے کے لئے متحرک ہو۔غور کریں تو شاید آپ کو اس ساری صورتحال میں عبرت کا سامان ملے، قدرت کے نظام کا ادراک حاصل ہو، خدائی پکڑ اور آزمائش کا فرق سمجھ میں آئے اور شاید یہ بات بھی دل کو لگے کہ پاکستان پر سایہ خدائے ذوالجلال ہے ۔خدائے ذوالجلال بلاشبہ رسی دراز کرتا ہے ، لوٹ مار، ،خزانہ چوری، وسائل کے غلط استعمال، منی لانڈرنگ، اقتدار سے ذاتی منافت کے حصول، کرپشن اور کمیشن خوری سے صرف نظر کرتا ہے کہ شاید میرا یہ بندہ راہ راست پہ آ جائے، شاید اسے ہدایت نصیب ہو شاید یہ توبہ کرلے لیکن جب رسی دہائیوں پر دراز ہو جائے اور بندہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اسی طرح پکڑ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پکڑ کے آغاز کے لئے محض بہانہ بنتا ہے ۔طاقتور لوگ اللہ سے معافی مانگنے کی بجائے خود سینے اکڑا کر غرور سے اعلان کرتے ہیں کہ ہاں ہمارا احتساب کرو، ہم نے کوئی چوری نہیں کی ہمارے پاس ایک ایک پائی کا حساب موجود ہے، ان کے مشیران اور حواری گلے پھاڑ پھاڑ کر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں اور آنکھیں دکھا دکھا کر عدالتوں کوکہتے ہیں کہ کر لو جو کرنا ہے، ہمارے قائدین نہایت معصوم ہیں وہ تو فرشتے ہیں لیکن جب اللہ کی پکڑ شروع ہوتی ہے تو ان کا واویلا قابل دید اور قابل عبرت ہوتا ہے ۔دوستو ذرا غور کرو یہ خدائی پکڑ نہیں تو اور کیا ہے کہ انسان طاقت و اختیار و اقتدار کے نشے میں بار بار احتساب کو دعوت دیتا ہے اور اعتماد کا لبادہ اوڑھ کر کہتا ہے کہ میں تو معصوم ہوں لیکن جب اس کی معصومیت کا امتحان شروع ہوتا ہے اور پائوں کے نیچے سے قالین کھسکنے لگتا ہے تو چمکدار چہرے ڈھلک جاتے ہیں، ہوائیاں اڑ جاتی ہیں، خلاصی کے لئے سیاسی و دنیاوی سہارے تلاش کئے جاتے ہیں اور بالاخر معافی کے دروازے پر دستک دی جاتی ہے معافی کے دروازے کھلے رہتے ہیں نہ جانے رب کبھی معاف کر دے ۔
دوستو!زندگی بھی دارالحساب ہے لیکن اصل حساب کا سلسلہ قبر سے شروع ہو گا اور یوم حساب تک پھیل جائے گا۔پیٹ میں پڑی حرام کی دمڑی اور حرام کے ایک ایک لقمے کا حساب دینا ہوگا میں یہ تاریخی واقعہ پڑھ کر کانپ گیا اور عرصے تک رب سے معافی مانگتا رہا۔نام نہیں لکھتا بس اتنا سن لیجئے کہ ایک خلیفہ وقت کو جب قبر میں اتارا جانے لگا تو ان کی میت تھر تھر کانپنے لگی ۔ لواحقین میں ایک صاحب باطن بھی تھا جس نے میت کو ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا فرمایا جلدی کرو اور جلدی سے قبر پر مٹی ڈالو ان کا حساب کتاب قبر میں لیٹنے سے پہلے ہی شروع ہوگیا ہے خزانوں، ملکی وسائل او رقومی مقدر کے مالکوں کا حساب بھی اتنا ہی سخت ہوتا ہے جتنی ذمہ داری، ان کا حشر بھی اتنا ہی خوفناک اور دردناک ہوتا ہے جتنا دنیا میں ان کی شان و شوکت، پروٹوکول، غرور سے اکڑی گردنیں، ہیرے جواہرات سے بھرے گھر، حواریوں درباریوں کی خوشامدیں اور قصیدے، جتنی بڑی ذمہ داری ، جتنی بڑی لوٹ ماراسی قدر حساب، اسی قدر احتساب اور اسی قدر عبرت کا سامان ۔
مجھے کئی قارئین یاد دلاتے ہیں کہ چند برس قبل تم نے لکھا تھا ’’ایک صاحب نظر کے بقول پاکستان میں جلد سرجیکل آپریشن کا دور شروع ہو گا لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیا جائے گا ‘‘آج دیکھتا ہوں تو امید کی کرن نظر آتی ہے لیکن خدارا اسے سچا احتساب بنائیں اور اس پر انتقام کا سایہ بھی نہ پڑنے دیں ۔رضائے الٰہی چاہئے تو ہر بات سے بلند ہو کر انصاف کے تقاضے پورے کریں ملزمان بہرحال اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے کسی نہ کسی پر الزام دھریں گے۔لوگ بھی شاید نہ خدائی پکڑ میں یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی قدرت کے انصاف میں ہماری سترسالہ تاریخ کے تناظر میں فوج کو الزام دینا ایک رسم بھی بن چکی ہے جو بلاجواز نہیں اب تو ماشاءاللہ عدلیہ بھی اس فہرست میں شامل ہوگئی ہے ان باتوں سے قطع نظر ایمان کی حد تک میرا یقین ہے کہ ہم نہ غریب قوم ہیں اور نہ ہی غربت ہمارا مقدر ہے ہمیں کرپشن، لوٹ مار اور دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے نے غریب بنایا ہے ۔سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں چھپائی گئی دولت سے لیکر انگلستان ، امریکہ، یو اے ای وغیرہ سے اگر دولت پاکستان واپس تشریف لے آئے تو قوم خوشحال ہو سکتی ہے اور بیرونی قرضے سے بھی نجات حاصل کر سکتی ہے میں نہیں جانتا کہ منتہائے الٰہی کیا ہے ؟ لیکن جی چاہتا ہے کہ احتساب ہوتا ہوا نظر آئے اور اس جال میں ہر مچھلی کو پکڑا جائے ۔
فی الحال آپ صرف اس بات پر غور کریں کہ ملک میں مارشل لاء ہے نہ غیر سیاسی حکومت، سیاست اور جمہوریت کے دور میں صاحبان اقتدار کے احتساب کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو تقریباً ناممکن بات ہوتی ہے دوستو ذرا سوچو یہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے ؟آپ مانیں یا نہ مانیں مجھے تو یہ کرامت ہی نظر آتی ہے جسے عرف عام میں لوگ معجزہ کہتے ہیں۔

تازہ ترین