• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

31اکتوبر 1929ء کو جمعرات کے روز میانوالی جیل میں ایک عاشق رسولؐ کو پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے وقت اس نوجوان عاشق رسولؐ کی عمر بیس سال دس مہینے اور اٹھائیس دن تھی۔ اس پھانسی کے بعد جسد خاکی کے حصول کےلئے میانوالی کے لوگوں نے تین دن تک جیل کا محاصرہ کئے رکھا، اس دوران ہنگامہ آرائی بھی ہوئی، ایک انگریز زخمی بھی ہوا، جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو اسی دوران جیل انتظامیہ نے جسد خاکی کو ایک کمبل میں لپیٹ کر جیل کی جنوبی دیوار کے ساتھ لاوارثوں کے قبرستان میں دفن کردیا۔ ابھی میانوالی میں لوگ قابو میں نہیں آئے تھے کہ لاہور میں ہنگامے شروع ہوگئے کیونکہ مسلمانوں کو یہ بات گوارہ نہیں تھی کہ ایک عاشق رسولؐ کو اس طرح دفن کردیا جائے لہٰذا یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ شہید کے جسد خاکی کو لاہور لایا جائے اور پھر لاہور میں نماز جنازہ کے بعد تدفین ہو۔ مسلمان سراپا احتجاج تھے اس دوران مسلمانوں کا ایک وفد علامہ اقبالؒ اور میاں امیر الدین کی قیادت میں گورنر پنجاب سے ملا، آخر کار علامہ محمد اقبالؒ کی گارنٹی کے بعد ایک عاشق رسولؐ کے جسد خاکی کو میانوالی سے لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس عاشق رسولؐ کا نام غازی علم دین شہیدؒ ہے۔ دسمبر 1908ء کو لاہور کے علاقے چابک سواراں (موجودہ محلہ سرفروشاں) میں پیدا ہونے والے علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے میں تکیہ سادھواں کی مسجد سے حاصل کی پھر وہ اندرون اکبری گیٹ بابا کالو کے مدرسے میں پڑھتے رہے اور پھر اپنے آبائی پیشے سے منسلک ہوگئے۔ اندرون لاہور میں بسنے والا مسلمانوں کا یہ خاندان جس میں علم دین پیدا ہوا، اس خاندان نے مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں اولیاء اللہ کی صحبت میں اسلام قبول کیا۔ اس خاندان کا مرشد خانہ اوکاڑہ میں رینالہ خورد کے نزدیک کرمانوالہ شریف ہے۔ دو تین روز پہلے اسلام آباد میں غازی علم دین شہیدؒ کے یوم شہادت پر ایک خصوصی تقریب ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت کرمانوالہ شریف کے پیر صمصام علی بخاری نے کی، صمصام بخاری چند سال پہلے وفاقی کابینہ کا حصہ تھے، آج کل پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ عاشق رسولؐ کی یاد میں ہونے والی اس تقریب میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی مہمان خصوصی تھے، مقررین میں سابق وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری، بریگیڈیئر (ر) اختر نواز جنجوعہ، ملک احمد حسین ڈیہڑ، مفتی گلزار احمد نعیمی علی رضا علوی، قاضی محمد الیاس، چوہدری سعید احمد اور یہ خاکسار تھے، اشرف جنجوعہ ویسے تو بزنس مین ہیں مگر وہ اس طرح کے یادگاری ایام منانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ اس تقریب میں ہونے والی گفتگو عشق رسولؐ کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتی رہی، مقررین نے عشق رسولؐ کا ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں جائزہ لیا، خاص طور پر بریگیڈیئر اختر نواز جنجوعہ اور علامہ افتخار حسین نقوی کی گفتگو، اسلام کے دامن سے عشق کی خوشبو میں مہکی ہوئی تھی مگر صمصام علی بخاری کے آفرین کہ انہوں نے ایک سچے مومن کی طرح بہت سی باتیں بے خوف و خطر کہہ دیں۔ ان باتوں کا تذکرہ بعد میں کرتے ہیں پہلے پندرہ نومبر 1929ء کو یاد کرلیں جب میانوالی سے ٹرین کے ذریعے غازی علم دین شہید کا جسد خاکی لاہور پہنچایا گیا، جہاں اس جسد خاکی کو وصول کرنے والوں میں ایک اور عاشق رسولؐ علامہ محمد اقبالؒ پیش پیش تھے، علامہ اقبالؒ تو قبرستان میانی صاحب میں غازی علم الدین شہیدؒ کا جسد خاکی لحد میں اتارنے والوں میں شامل تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لاہور کی پوری تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ کسی کا نہیں ہوا، جتنا بڑا جنازہ اس سچے عاشق رسولؐ غازی علم دین شہیدؒ کا تھا۔ چھ لاکھ سے زائد مسلمان جنازے میں شامل تھے، جنازے کا جلوس بھی ساڑھے پانچ کلومیٹر طویل تھا۔ غازیؒ کی شہادت کے بعد بھی ان کے خاندان نے اپنے مرشد خانے سے رابطہ نہ توڑا حتیٰ کہ غازی علم دین شہیدؒ کے بھتیجے جمیل کی وفات بھی کرمانوالہ شریف ہی میں ہوئی۔
اب آتے ہیں اس گفتگو کی طرف جو انتہائی دھیمے مزاج کے آدمی صمصام بخاری نے بڑے جذباتی انداز میں کی، اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ جب کبھی جہاں کہیں عشق رسولؐ کی بات ہوگی تو وہ جذباتی ہو جائیں گے۔ عشق محمدؐ کی خوشبو میں حالات کے موجودہ تقاضوں کا جائزہ لیتے ہوئے کرمانوالہ کا چشم و چراغ بولا ’’....چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے،ہر زمانے میں مختلف وارداتوں کے ذریعے شمع رسالتؐ کے پرانوں کو چھیڑنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر ہر دور میں عشق کا پرچم بلند کرنے والے موجود رہے، قیام پاکستان کے وقت بھی بعض مذہبی جماعتوں کے افراد عاشقان رسولؐ کو طرح طرح کے القابات سے یاد کرتے رہے، بعض مذہبی جماعتوں کے افراد پاکستان کے قیام کی مخالفت کرتے رہے، میرے نزدیک تو قائداعظم اور علامہ اقبالؒ سچے اور بڑے عاشق رسولؐ تھے۔
دراصل مغربی قوتوں نے بہت سے ایسے فرقے تیار کئے جو عشق رسولؐ کی لو کو مدھم تو کیا بجھانے پر تلے ہوئے ہیں، پاکستان بننے کے بعد بھی یہ لوگ وقتاً فوقتاً ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ نبی پاکؐ کے عاشقوں کے دل جذباتی ہو جاتے ہیں، حال ہی میں قومی اسمبلی میں کیا ہوا، جمالی صاحب میرے بزرگ ہیں، انہوں نے جو کہا وہ درست کہا مگر اگر میں اس اسمبلی کا رکن ہوتا تو میں لڑتا، تقریریں کرتا، انہیں بے نقاب کرتا اور استعفیٰ دے کر گھر آجاتا کیونکہ میں ایسی اسمبلی کا رکن رہ ہی نہیں سکتا جو ناموس رسالتؐ کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، جسے اپنے نبیؐ کی ناموس کا پاس نہ ہو، میں جانتا ہوں یہ سازش کہاں تیار ہوئی، اب کیوں رپورٹ دبا رکھی ہے کیوں نہیں ذمہ داران کو سامنے لاتے، محض دنیاوی فوائد کے لئے یہ کیا کردیا ان لوگوں نے، کیا انہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں....‘‘
صمصام بخاری کی باتیں درست ہیں، ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی حالت عجیب ہے، انہیں پتہ نہیں کس کا خوف ہے، پتہ نہیں کونسا ڈر ہے کہ وہ حرمت رسولؐ کی پاسداری میں بھی دنیاوی فوائد ڈھونڈتے ہیں حالانکہ مرد قلندرؒ نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
عجیب دور آگیا ہے لوگ حکومتیں بچانے کیلئے کیا کچھ کررہے ہیں، چند اور مسلمان ممالک بھی قادیانیوں کو ایک مسلم فرقے کے طور پر مدعو کررہے ہیں، یہ کیا عجیب کھیل، کھیل رہے ہیں، کیا انہیں آخرت کی فکر نہیں اور کیا یہ اس جذبے سے واقف نہیں ہیں جو عاشقان محمدؐ کے دلوں میں بستا ہے، ایسے لوگوں کو یاد ررکھنا چاہئے کہ ہماری صفوںمیں کوئی نہ کوئی علم دین ہر وقت موجود رہتا ہے، یاد رہے کہ عشق بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے، ایسے جذبوں کو سرور ارمانؔ کے دو اشعار نمایاں کررہے ہیں کہ؎
ذوق جمال، حسن نظر بیچتے نہیں
ہم آرزو کے شمس و قمر بیچتے نہیں
دشوار ہوں منازل فکر و نظر تو کیا
کچھ شہسوار عزم سفر بیچتے نہیں

تازہ ترین