• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائنس ون اور ٹیکنوکریٹ کی اصطلاحات پیارے وطن کیلئے نئی نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مبلغ اٹھارہ عدد وزرائےاعظم کو اسی’’ جمہوریت کش‘‘ فارمولے کے تحت ان کے عہدوں سے ہٹایاگیا ہے۔ مسلم لیگ نون ظاہر ہے اپنے قائد نوازشریف کے نام کے ساتھ اسم بامسمیٰ کی ایک تصویر ہے ۔ نااہلی کے بعد خاکم بدہن اب اگر نوازشریف کو مسلم لیگ سے بھی علیحدہ کیاجاتا ہے تویہ ایساہی ہوگاکہ غزل گائیکی کے شعبے سے شہنشاہ غزل مہدی حسن کو الگ کیاجائے ۔اس مائنس ون فارمولے کو یوں بھی سمجھا جاسکتاہے کہ پنجابی لوک میوزک سے الحاج عالم لوہار کو الگ رکھاجائے ۔ برصغیر میںپس پردہ موسیقی کی تاریخ ملکہ ترنم نورجہاں اور محمد رفیع کا نام لئے بغیر بھی مکمل نہیں ہوسکتی۔نورجہاں نے حبیب جالب کا گیت گایاتھا۔۔ظلم رہے اور امن بھی ہو۔۔شاید یہ گیت بر موقع نہیں ہے لیکن میاں صاحب اور ان کے حواری کہہ رہے ہیںکہ وہ سیاسی مظلوم ہیںاوران کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ محمد رفیع نے بھی بہت سی فلموں میں ایسے گیت گائے ہیں جو تاثر کے اعتبار سے باقاعدہ احتجاجی تحریک دکھائی دئیے۔بیجوباورا کا وہ گیت یاد کیجئے جس میں محمد رفیع باجے کی تینوں سپتکیں پھلانگ گئے تھے…او دنیا کے رکھوالے ،سن درد بھرے میرے نالے…لیکن میاں صاحب کو محمد رفیع کا وہ گیت زیادہ پسند ہے ۔بہارو پھول برسائو ،میرا محبوب آیا ہے۔پیپلز پارٹی یہ الزام بھی عائد کرتی ہے کہ میاں صاحب احتساب عدالتوں کے بھی محبوب ہیں اسی لئے پیشیوں پر بھی ان پر پھول برسائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کا سخت ترین احتساب کیاجارہاہے جبکہ دوسری جانب شریفوں کا وی وی آئی پی احتساب ہورہاہے ۔ریڈ کارپٹ پر ہونے والے احتساب کو کیٹ واک بھی کہاجاسکتاہے ۔ لاہور کے حلقہ 120میں نون لیگ کی کامیابی نے ثابت کردیاہے کہ لاہور مسلم لیگ کا لاڑکانہ ہے ۔ تاہم نون لیگیوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لاہور میں نہر کے کنارے زمان پارک بھی ہے جہاں کپتان سالہاسال سے رہائش پذیر ہیں اگرچہ زمان پارک رائے ونڈ کے محلات جیسا وسیع وعریض نہیں ہے لیکن چاہنے والے اس سے ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں جیسی سائوتھ افریقی نیلسن منڈیلاکے گائوں Mvezoسے رکھتے ہیں۔
پنجاب بھر میں ترقیاتی فنڈز بھی جاری وساری ہیں اور ترقیاتی منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچ رہے ہیں حالانکہ یہ عظیم منصوبے عوام کے خون پسینے کی کمائی میں سے وصول کئے گئے ٹیکسوں سے شرمندہ تعبیر ہورہے ہیں لیکن ان پر تختیاں نون لیگ کی قیادت کے ناموں کی کندہ ہورہی ہیں۔ ہم مائنس ون کی بات کررہے تھے نوازشریف کے بغیر نون لیگ ایسے ہی ہوگی جیسے طبلہ نواز کا فن استاد طافو کے بغیر نامکمل کہلائے گا ۔ شخصی سیاست اور موسیقی کے قدردان اس نسبت تناسب کو یوں بیان بھی کرسکتے ہیں نون لیگ کی سیاست میاں صاحب کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے گریٹ جرمن میوزک ڈائریکٹر بتھون کے بغیر سمفینی آرکسٹرا بے کیف اور بے رنگ سمجھاجائے گا۔گزشتہ دنوں جب بلاول ہائوس لاہور میں بلاول اور زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی توانہوں نے کہاتھاکہ ’’اب میاں صاحب سے بات نہیں ہوگی‘‘۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی تھی کہ دونوں پارٹیوں (نون اور پی پی ) نے طے کیاتھاکہ جمہوری نظام کی بقا کے لئے باہم مل کرچلیں گے لیکن دوموقعوں پر میاں صاحب نے طے شدہ ملاقاتوں سے منہ موڑا اور اپنا ٹیلی فون آف کرلیا۔زرداری صاحب نے کہاکہ اب ہمارا ٹیلی فون بھی میاں صاحب پر بند ہی رہیگا۔حامد میر صاحب نے بتایاہے کہ زرداری صاحب نے خواجہ آصف کا فون بھی نہیں سنا حالانکہ دونوں میں بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کے ساتھ دوستی بھی ہے ۔خواجہ صاحب نے 7مرتبہ فون کیا اور ایس ایم ایس بھی Sendکئے لیکن زرداری صاحب نے رسپانس نہیں دیا۔سیاسی اسٹاک ایکسچینج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مسٹر زرداری اب مفاہمت والی کھڑکی بند ہی رکھیں گے اس کی وجہ 2018کے انتخابات ہیں۔پاکستانی سیاست کی اسٹوری یہ ہے کہ نون لیگ ہاف ٹائم کے بعد وہ کریکٹر ادا کر رہی ہے جو رول پیپلز پارٹی ہاف ٹائم سے پہلے پلے کرچکی ہے۔یہ وہ دن تھے جب پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھی جاتی تھی اور نون لیگ انوکھی لاڈلی ہوا کرتی تھی۔لاڈلے اور لاڈلیاں کھیلن کو چاند ہی مانگا کرتے ہیں۔اب بھی کہاجارہاہے کہ 1999جیسی بلیوو ہیل ( خطرناک کھیل ) کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے ،آصف زرداری کو چونکہ میاں صاحب اور ان کے مشیروں کے اس خطرناک کھیل کی ’’مخبری ‘‘ ہوچکی ہے لہذا انہوں نے مفاہمت والا سوئچ آف کرلیا ہے ۔آصف زرداری خیال کرتے ہیںکہ میاں صاحب قابل اعتماد دوست نہیں ہیں ، یہ مشکل وقت میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اور جب خود مصیبت میں ہوتے ہیں تو مظلوم اورمعصوم بن جاتے ہیں۔
وطن عزیز میںمایوسی الیون اور خوش گمان ٹیم میں جاری طویل ٹیسٹ سیریز اب ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا روپ دھار چکی ہے۔مارشل لااور ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں بھی ہورہی ہیں حالانکہ فوجی ترجمان ادارہ کہہ چکا آئین کی تابع فرمانی ہوگی۔خوش گمان بدلے ہوئے پاکستان کی تاویل دیتے ہوئے سب سے بڑی مثال سوشل میڈیا کی دیتے ہیں۔اس پلیٹ فارم پر خاص وعام ہر کسی کا پوسٹ مارٹم کررہے ہیں ۔کسی سے کچھ چھپایانہیں جاسکتا،لیکن سینئر صحافی احمد نورانی کے ساتھ ہونے والی واردات کودیکھیں تو ماننا پڑتاہے کہ آزادی اظہار کی جدید روایت اور سہولت کا معاملہ ابھی ’’ہنوز دہلی دور است ‘‘ والاہے۔ جہاں تک ٹیکنوکریٹس کی بات ہے تو پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد بھی ٹیکنو کریٹ تھے جنہوں نے ریاستی اور حکومتی منشا سے وطن عزیز کی معیشت کو دنیا میںسرمایہ دارانہ نظام کے روح رواں امریکہ کے ساتھ باندھا تھا۔بعدازاں کئی بار ٹیکنوکریٹس کویہ کہہ کر لایاگیاکہ یہ معاشی نظام میں استحکام اور بہتری لائیں گے مگریہ نعرہ حسن والوں کے وعدے کی طرح کبھی وفا نہ ہوا۔جنرل ضیاالحق کے دور کے معین قریشی اور جنرل پرویز مشرف کے شوکت عزیز کے ’’معاشی ہیروز‘‘ قوم کو بھولے نہیںہیں۔
شوکت عزیز کی معاشی پالیسیاں ٹریکل ڈائون اکانومی سے مشہور ہوئیں ۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزرائےاعظم کا احتساب تو ہوتاہے لیکن شوکت عزیز جیسے ’’ڈارلنگ وزیر اعظم ‘‘ کو پروٹوکول کے ساتھ گڈ بائے کہاجاتاہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے شوکت عزیز جب اپنی اہلیہ رخسانہ کے ساتھ اسپیشل فلیٹ میں داخل ہورہے تھے توفضائوں میں یہ گیت گونج رہاتھا ۔۔او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ ،اومیرے حسیں خواب کے مہمان خدا حافظ۔۔ایک ’’غیر محتاط اندازے ‘‘ کے مطابق قومی اسمبلی کی 342نشستوںکی ’’منصفانہ تقسیم‘‘ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔اس وقت قومی اسمبلی میں نون لیگ 172سیٹوں کے ساتھ حکومت بنائے ہوئے ہے ،پیپلز پارٹی کے پاس 46اور تحریک انصاف 35نشستوں کے ساتھ منہ توڑ قسم کی اپوزیشن کررہی ہے۔آنے والے دنوں میں قومی مفاد کے نام پر قومی اسمبلی میں ’’توازن ‘‘ پیدا کیاجائیگالیکن یاد رہے ہم یہ تمام تجربات کرچکے ہیں۔مائنس ون کی سیاست گزشتہ 70سال سے جاری ہے اس منفی اورجمع کے سانپ سیڑھی کھیل سے قوم کا کوئی بھلانہیںہوا۔قومی سیاست کو عنوان دیتا شعر ملاحظہ ہو
جمع تم ہونہیں سکتے ،مجھے منفی سے نفرت ہے
تمہیں تقسیم کرتاہوں تو،حاصل کچھ نہیں ہوتا

تازہ ترین