• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘مجھ جیسے رقیق القلب کو بھی اسحاق ڈار کی تصویر دیکھ کر کچھ نہیں ہوا حالانکہ وہ کلینک میں ’’باوردی‘‘ لیٹا ہوا ہے اور خبر یہ کہ اس کی اینجیوپلاسٹی ہونے والی ہے۔ خبر کی ’’پخ‘‘ یہ ہے کہ اسحاق ڈار وکلا کوفیس بھی نہیں دے سکے کیونکہ ان کے اکائونٹس منجمدہیں۔ کیسا کیسا نفیس پاکٹ مار اور فنکار اس معاشرے میں موجودہے۔ مزاروں پر چادریں بھی چڑھانی ہیںاور اربوں روپے کےچاند بھی چڑھانے ہیں، مزاروں پر پھولوں کی چادریں بھی چڑھانی ہیں اور مالیاتی وارداتوں کے گل بھی کھلانے ہیں۔ مزاروں پرجھاڑو دینےکے ساتھ ساتھ ملکی وسائل پر جھاڑو بھی پھیرنا ہے۔گھر کا نام ’’ہجویری ہائوس‘‘رکھ کر ہیرا پھیری کے نت نئے ریکارڈ بھی قائم کرنے ہیں۔ کسی مصلن کے سر سے اتنی جوئیں نہیں نکلتیں جتنی ان کی جائیدادیں نکل رہی ہیں۔ ذاتی ملازموں سے لے کر دوستوں تک ہر کوئی وعدہ معاف گواہ بننے کےلئے تیار اور خود فرار حالانکہ فلسفہ بہت سادہ ہے یعنی’’باہر چلے جائو یا اندر چلے جائو‘‘مختصراً یہ کہ عذاب جان! اس ملک کی جان چھوڑ دو۔ تم تو لوگوں سے ان کی غربت اور حسرت تک چھیننے پر تلے ہو۔ دودھ کی رکھوالی بلے بلکہ باگڑ بلے اور چارے کی چوکیداری پر بکرے بلکہ بوبکرے..... یہ ہے اصل میں اس ملک کی اقتصادی پالیسی۔ کئی لوگوں سے سنا ہے کہ جب پہلی بار ڈار کو شرف باریابی حاصل ہوا تو سات سلام بعد الٹے قدموں فنکار کی رخصتی پر ملانے والے سے میاں صاحب نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’اتنا گہرا سانولا کشمیری کہاں سے پکڑ لائے ہو؟‘‘ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے ’’رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں‘‘ ہوگئے۔ ناک کے بال اور ہتھیلی کی کھال سے بڑھ کر قریب ہوتےہوتے سمدھی کے مقام پر فائزہوئے تو فنکاری اک نئے مرحلے پر پہنچ کر اک نئے مقام سے آشنا ہوئی۔ اعداد و شمار کی ٹمپرنگ پر ملک نے جرمانے بھی بھرے لیکن..... ’’یہ فسانے ترے یہ بہانے ترے یہ خزانے ترے‘‘ سنا ہے پرویز مشرف کو بھی اس طرح آئینے میں اتارا کہ آپ بھی انہیں وزیر خارجہ بنانے پر مائل تھے کہ کسی قریبی نے سمجھایا حضور! ہوش کیجئے کہ ان کے ڈسے پانی نہیں مانگتے۔ یہ تو وہ ہیں جن سے ہاتھ ملا لیں تو وہ سرخ و سفید بھی ہو تو نیلا پڑ جاتا ہے۔مجھ جیسا آدمی جو فلم، ٹی وی ڈرامے، ناول میں بھی ظلم ہوتا دیکھے تو گھبراکر چینل بدل دیتا ہے یا صفحہ الٹ دیتاہے اور ایلکس ہیلی کا ناول ’’روٹس‘‘ پڑھنے کواپنی ’’بہادری‘‘ کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسحاق ڈار کو ہسپتال میں زیرعلاج دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوا جیسے ایسے لوگ اپنے لوگوں کی محرومیوں پر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ایک سےبڑھ کر ایک ایکشن، سسپنس، تھرل سے بھرپور بلاک بسٹر ریلیز ہو رہی ہے۔ کہیں’’ٹارزن کی واپسی‘‘ کھڑکی توڑ ہے تو کہیں ’’ہنٹروالی‘‘ پسلی توڑ ہفتے منا رہی ہے۔انصاف کے طلب گار محو یلغار ہیں۔ اداروں، اپنے وفاداروں اور ووٹروں کو پیغام پر پیغام دے رہے ہیں کہ ہاتھی سوا لاکھ کا اور نااہل بھی ہو جائے تو سوا لاکھ اور یہ سب لائو لشکر تام جھام اس لئے کہ لوگ تھمے، جمے اور ڈٹے رہیں کیونکہ اصل مقبولیت تو اتنی ہی ہے جتنی 1999کے 12اکتوبر کو دکھائی دی کہ دو چار کبوتر بھی نہیں پھڑپھڑائے تھے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مختلف شہروں میں ’’ایجی ٹیشن‘‘کے لئے ٹاسک دیا جارہا ہے۔ بیروزگاری عام ہے اور دولت کی کمی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں ’’رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیاجائے‘‘کے بعد اک اور سنہری قول یاد آتا ہے کہ’’بے شک میں نےاپنے رب کو اپنے ارادوں کےٹوٹنے سے پہچانا‘‘ (مفہوم) بے شک سینٹ تک کا سفر اتنا سہانا نہیںہوگاکہ ملک اور قوم کے لئے ڈرائونا خواب بن جائے۔ابرو دھل جائیں گے، جعلی پلکیں جھڑ جائیں گی، مصنوعی ناخن اترجائیں گے۔ استاد الاساتذہ برادر بزرگ ظفر اقبال نے یونہی نہیں کہہ رکھا؎کاغذ کے پھول سر پر سجا کر چلی حیاتنکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا’’اسموگ‘‘ سے لے کر ’’سیاسی اسموگ‘‘ تک کے بہت چرچے ہیں لیکن یہ سب بارش کی ایک دھار، ایک پھوار کی مار ہے کہ ’’اسموگ‘‘ افتادگان خاک کا مستقل مقدرتو نہیں ہوسکتا۔لوگ نیند میں خواب دیکھتے ہیں۔ مجھے نیند کم آتی ہے اور آئے بھی تو اتنی گہری کبھی نہیں ہوتی کہ نیند میں خواب دیکھ سکوں اس لئے مجھے جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادت ہے جن میں سے چند خواب میں بیسیوں بار اپنے قارئین اور ناظرین کے ساتھ شیئر کرچکا ہوں اور ایک بار پھر شیئر کرنا چاہتاہوں۔پہلا خواب:اس عوام دشمن نظام کو خالص تیزاب کے ساتھ غسل دیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی غلاظت تیزی سے دھلتی جارہی ہے۔دوسرا خواب:’’تارا مسیح‘‘ اپنی ٹیم سمیت تین تین شفٹوں میں مسلسل کام کررہا ہے اور بیک گرائونڈ میںیہ گیت چل رہا ہے ’’جب کشتی ڈوبنےلگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘تیسرا خواب:آٹومیٹک گلوٹن اپنے کام میں مصروف ہے۔ایسے میں کسی کا یہ کہا یادآرہا ہے کہ ’’گندے خون تبدیل نہیں کئے جاسکتے صرف بہائے جاسکتے ہیں۔‘‘

تازہ ترین