• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی پی میں موجود کچھ مثالیت پسند سب کے احتساب کی بات کررہے تھے ۔ اب تک اُنہیں اس مطالبے کے نقصان کی سمجھ آچکی ہوگی ۔نئے احتساب قانون میں ججوں اور جنرلوں کا عوامی احتساب کرنے کے مطالبے کو خارج کردیا گیا ہے ۔ اچھی لگے یا بری، ہمارے ہاں یہی حقیقت سکہ رائج الوقت ہے۔ اگر ہم اپنے تاریخی پس ِ منظر، جس میں ان اداروں نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کو کنٹرول کیا ، سے قدم باہر نکالیں تو’’ہم چپ رہے، ہم ہنس دئیے، منظور تھا پردہ ترا‘‘ کی عملی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اس بات پر کامل سیاسی اتفاق ِرائے رہاہے کہ ان دونوں اہم اداروں کے اختیارات کسی عوامی احتساب کے دائرہ ٔ کار میں نہیں آتے۔ کیا ججوں اور جنرلوں کو حاصل طاقت کوتقدیس کا درجہ حاصل ہے کہ اُنہیں مقدس گائے سمجھا جائے ؟ باقی جمہوری دنیا میںیہ بات ناقابل ِ تصور ہے کہ عدلیہ اور فوج پر تنقید نہ کی جاسکتی ہو۔ ہمارا آئین ہمارے آزادی ٔ اظہار پر پہرے بٹھاتا ہے ۔ ہم کھل کر تنقیدی لہجہ اختیار نہیں کرسکتے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہماری نسلیںاتنی بااختیار ضرور ہوں گی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 63(g) میں ترمیم کرتے ہوئے اس دہرے پن کا خاتمہ کردیں گی جو کچھ ریاستی اتھارٹی سے گریز اور کچھ پر مائل بہ کرم دکھائی دیتا ہے ۔
تھیوری کے اعتبار سے شہریوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ عوامی عہدیداروں کوتفویض کردہ ریاستی اتھارٹی ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے روکنے کے لئے اُن کا شفاف طریقے سے احتساب کرسکیں۔ فوج اور عدلیہ کی اہم ذمہ داریاں اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرتیں کہ اُن میں سے بعض اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے ، اورنہ ہی اُنہیں عوامی احتساب سے باہر رکھنے کی کوئی معقول وجہ موجود ہے ۔ فوج ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لئے جسمانی طاقت رکھتی ہے ۔ لیکن طاقت رکھنے کے اس جواز کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں کہ اسے کسی قسم کا استثنا دیا جائے (اس نے ملک کی تخلیق سے لے کر اب تک نصف کے قریب عرصہ تک ملک پر براہ ِراست حکومت کی ہے )۔ عدلیہ کا احتساب نہ کرنے کا جواز اس سے بھی کمزور ہے ۔ شہریوں اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال ہونے والے قانون کی تشریح کرنے والے اس ادارے کے پاس بے پناہ طاقت ہوتی ہے ۔ ایک جج ایک عام شہری کے انتہائی اہم حقوق چھین سکتا ہے ،جیسا کہ جینے کا حق، مساوات اور عزت اور آزادی۔کیا ان بنیادی حقوق کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے یا مزید سمٹ سکتا ہے ، یا کیا یہ حقوق کسی خوف یا حمایت کے بغیر دئیے، یا سلب کیے جارہے ہیں؟ ان سب امور کا فیصلہ جج صاحبان کی صوابدید نے کرنا ہوتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جج صاحبان الہامی طاقت نہیں رکھتے ۔ وہ بھی انسان ہیں، چنانچہ وہ دیگر انسانوں کی طرح غلطیوں سے مبرا نہیں۔ لہٰذا اتنے اہم اور بااختیار عہدوں پر فائز افراد کو زیادہ کڑی جانچ سے گزرنے کی ضرورت ہے ۔
جج اور جنرل انتخابات لڑ کر منتخب نہیں ہوتے ہیں، اس لئے اُنہیں کسی سیاسی احتساب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ہمارے پاس احتساب کے دو طریقے باقی رہ جاتے ہیں: ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی ۔جج اور جنرل اسی معاشرے کا حصہ ہیں، چنانچہ اُن کا اخلاقی چلن باقی معاشرے کے مطابق ہی ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی خود احتسابی کو کافی سمجھنا درست نہ ہوگا۔اس کے بعد ہمارے سامنے احتساب کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہ جاتا ہے ۔ چنانچہ جب ہم اُنہیں قانونی احتساب کے دائرے سے باہر رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اُنہیں ہر قسم کے احتساب سے مبرا قرار دیتے ہوئے مقدس گائے سمجھ لیتے ہیں۔
اس کے برعکس دلائل یہ ہیں کہ یہ ادارے داخلی احتساب کا اپنا نظام رکھتے ہیں۔ نیز انہیں عوامی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے ان کی خودمختاری اور وقارکو نقصان پہنچتا ہے ۔ یہ دونوں دلائل بوگس ہیں۔ اگر عوامی احتساب کا نظام ( جس کی نگرانی خود عدلیہ کرتی ہے ) ناقص ہے تو پھر کسی عام شہری کواس کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے ؟ ایک خراب چیز ہر کسی کے لئے خراب ہے ۔ اس الجھن کا حل یہ ہے کہ اس نظام کو درست کیا جائے تاکہ کوئی اس سے من پسند نتائج حاصل نہ کرسکے ، بجائے اس کے کہ کچھ طاقتوراداروں کے ممبران کو اس کے دائرے سے باہر رکھا جائے ۔
دوسر ی دلیل(اگرچہ اس کا کبھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے) ، کہ فوج اور عدلیہ داخلی احتساب کا جاندار نظام رکھتے ہیں، کے باوجود یہ شہریوں کا حق ہے کہ وہ جنہیں اختیارات تفویض کرتے ہیں، اُن کا خود بھی احتساب کرسکیں۔ اگر داخلی احتساب کی رسم درست بھی ہو تو بھی یہ مفروضہ درست نہیں کہ چونکہ جج اور جنرل اشرافیہ کے کلب میں ہیں، اس لئے وہ اپنا احتساب خود ہی کریں گے ۔ یہ جاننا ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ قصورواروں کا احتساب کس طرح ہورہا ہے ۔ یہ کوئی نجی ایشو نہیں بلکہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے ۔ اگر اداروں میں داخلی احتساب کا خفیہ نظام موجود ہو تو بھی سوال اٹھتا ہے کہ ان اداروں کے سربراہوں کا احتساب کیسے ہوگا؟فرض کریں ایک آرمی چیف یا چیف جسٹس پر بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے تو اُن کا داخلی انتظام کے تحت کس طرح احتساب ممکن ہے جبکہ وہ خود تمام نظام کو کنٹرول کررہے ہوتے ہیں؟
ہمارے آئین میں سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے ، لیکن اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس کی غیر فعالیت سب پر عیاں ہے ۔اس پلیٹ فارم پر صرف دو مواقع پر ججوں کا احتساب ہوتے دیکھا گیا ۔اس احتساب سے بھی جوڈیشل مس کنڈکٹ کے حوالے سے کوئی قانون سازی سامنے نہ آسکی ۔ وہ جج جو دوسرے ریاستی اہل کاروں کے مس کنڈکٹ پر ہمہ وقت قانون وضع کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ خود ایسی کوئی قانون سازی نہ کرسکے کہ جو جج اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، یا جو کریں گے ، اُن کے ساتھ کیا کیا جائے؟اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی چیلنج کی سماعت ہورہی ہے جس کا تعلق ہائی کورٹ کے ایک جج سے ہے ۔ اس جج کو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس دیا کہ کیوں نہ اُنہیں جوڈیشل مس کنڈکٹ کی پاداش میں عہدے سے ہٹا دیا جائے ۔تاہم اُن جج صاحب کا اصرار ہے کہ اُن کا ٹرائل کھلے عام کیا جائے ۔ سپریم جوڈیشل کونسل بنددروازوں کے پیچھے ٹرائل پر زور دیتی ہے ۔ اس رازداری کے پیچھے روایتی جواز ایک جج کے وقار کا تحفظ ہوتا ہے کیونکہ جس دوران احتساب کی کارروائی چل رہی ہوتی ہے ، وہ اپنے عہدے پر موجود ہوتا ہے ۔
جرمی بنتھم کا ایک قول مشہور ہے ۔۔۔’’انصاف وہ جو دکھائی دے ۔صرف اسی طریقے سے بددیانتی کی روک تھام ہوسکتی ہے ۔ ‘‘ ’’امبارڈ بنام اٹارنی جنرل ٹرائی نیداد اور ٹاباگو‘‘ کیس میں لارڈ اٹکن (Atkin) لکھتے ہیں۔۔۔’’انصاف حجرہ نشین نہیں ہوتا۔ اس پر عام آدمی کو جانچ اور تبصرے کی اجازت ہوتی ہے ۔‘‘کیا اس اصول کے تحت آرٹیکل 10-A متعارف نہیں کرایا گیا تھا کہ فیئرٹرائل ہر کسی کا آئینی حق ہے ؟ جسٹس بلیک اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔۔۔’’کسی قصوروار کا کھلے عام ٹرائل کرنے کا معاشرہ کو بھی فائدہ ہوتا ہے اورملزم کو بھی ، کیونکہ عدالتیں اپنی اتھارٹی کو غلط استعمال نہیںکرسکتیں۔ یہ احساس کہ ہر قصوروار کے ٹرائل کو دیکھا جارہا ہے ، جوڈیشل اختیار کے غلط استعمال کو روکتا ہے ۔ ‘‘ کیا عام شہری کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو شفافیت بڑھاتی ہے یا رازداری ؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ہم آرٹیکل 10-A نہیں رکھتے تھے ، ہماری عدلیہ ایگزیکٹوکا احتساب کرتے ہوئے نیچر ل جسٹس کے اصول دہراتی سنائی دیتی تھی ، لیکن جب سے یہ آرٹیکل متعارف کرایا گیا ہے ، عدلیہ نے اس کے دائرہ کار اور معلومات کے حق کو محدود کردیا ہے ، خاص طور پر جب عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کے معاملات کی جانچ ، فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت، جوڈیشل تقرریوں کو خفیہ رکھنے ، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو بنددروازوں کے پیچھے رکھنے اورججوں کے خلاف زیر التوا ریفرنسز کے بارے میں جاننے کی بات ہو۔ اگر میڈیا نے ججوں پر الزامات کا پہلے ہی انکشاف کردیا ہو تو پھراحتساب کے وقت کس رازداری کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
ناقدین کو شک ہے کہ رازداری کی اصل وجہ وہ خطرہ ہے کہ الزام کی زد میں آنے والا جج کہیں اداروں کے اندر پائی جانے والی مایوسی اور تقرریوں کے من پسند اصولوںکا بھانڈانہ پھوڑ دے کہ یہاں کس طرح پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اگر تمام کارروائی شفاف طریقے سے عوام کی نظروں کے سامنے ہو تو ایسے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ رازداری کے لئے اختیار کیا جانے والا موقف یہ ہے کہ اگر عدلیہ کا احتساب اور فیصلہ سازی کا عمل عوام کی نگاہوں کے سامنے ہو تو پھر عوامی سطح پر ہونے والی تنقید عدلیہ کو حاصل اعتماد کو مجروح کردے گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ کرنے والی عدلیہ کا احترام ضروری ہے ، لیکن رازداری کے دبیز پردے اس احترام کا تحفظ نہیں کرسکتے ، اور نہ ہی توہین عدالت کی دھمکی اس احترام کو یقینی بناسکتی ہے ۔ جب جج صاحبان قانون کے مطابق کام کرتے ہوئے عوام کا اعتماد رکھتے ہوں تو انہیں کسی رازداری کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔

تازہ ترین