• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ایک فارغ دوست، فارغ کا مطلب یہ نہیںکہ وہ کچھ نہیں کرتے، وہ تو اچھے بھلے پڑھے لکھے بزنس مین ہیںاور اپنا بزنس بڑھانے میں ہروقت مصروف رہتے ہیں ۔ لیکن اتنے مصروف ہونے کے باوجود کچھ برسوں سے لگتا ہے کہ بالکل فارغ ہیں کیونکہ وہ دن بھر میں ہر چند منٹ بعد اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی کنگھی نکال کر سر کے بالوں کو درست کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی ضروری میٹنگ کے دوران ہی کنگھی نکال لیتے ہیں اور بعض اوقات واش روم جاکر بالوں کو درست کر کے آتے ہیں۔ ہم نے اپنے اس بے تکلف دوست کی کئی مرتبہ ’’ کٹ ‘‘ لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ آپ کے سرپر چند بال ہیں اُن کی درستگی کیلئے وقت ضائع کرتے ہیں—وہ ہمارے لئے اس طعنے کے ساتھ دعا کرتے ہیںکہ اللہ آپکے بال بھی میرے جیسے کر دے پھرآپکو پتہ چلے گا میں تو اپنے بالوں کی’’مشہوری ‘‘ کیلئے ایسا کرتا ہوں کہ میرے سر پر بال ہیں۔ ہم نے کئی مرتبہ اُن کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ مشہوری نہیں بلکہ گمراہی ہے اور گمراہی کی اس تھیوری پر حکمرانوں کو اکثر عمل کرتے دیکھا گیا ہے جو الیکشن قریب آتے ہی گمراہی زدہ مشہوری کی یہ کنگھی اپنی حکمرانی کے سر پر پھیرنی شروع کر دیتے ہیں تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں کہ وہ عوام میں مقبولیت کے ریکارڈ رکھتے ہیں ۔ جس کیلئے وہ بڑی بڑی نام نہاد ایڈورٹائزنگ کمپنیوں اور ریسرچ کے اداروں کو منہ مانگے دام کے عوض اپنے پسندیدہ سوالوں کے پسندیدہ نتائج حاصل کرکے انہیں میڈیا کی زینت بناتے ہیں ۔پہلے یہ سب الیکشن سیزن میں ہوتا تھا مگر اب تو اپوزیشن کی مخالفت کے توڑ کیلئے موقع بے موقع ایسے ’’ گمراہی سروے‘‘ کروائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کے گمراہی سروے میں ترتیب دیئے گئے نتائج کے حوالے سے عوام نے کچھ سوالات کئے ہیں تاکہ زمینی حقائق سے سب آگاہ ہو سکیں۔
حالیہ دنوں میں امریکی ادارے گلوبل ا سٹرٹیجک پارٹنر کے زیر اہتمام نیشنل پبلک اوپینیئن کے نام سے پاکستان بھر کے مختلف مقامات پر 18برس سے بڑی عمر کے 45سو 40افراد سے سروے کیا گیا ۔ سروے کا اہم ترین نتیجہ یہ نکالا گیا کہ ’’ شہباز شریف ہی بہترین وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔‘‘ شائع شدہ سروے کے مطابق 60 فیصد نے بہتر وزیراعظم قرار دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اس سروے میں وزیراعظم کیلئے اور کون کون سے نام شامل کئے گئے تھے ، انکے چنائو کا معیار کیاتھا، 45سو 40افراد سے جو ان پرسن انٹرویو کئےگئے وہ ریسرچ کے کس طریقہ کار کے مطابق تھے،ان کی سیمپلنگ میں کونسی سائنسی تکنیک استعمال ہوئی جس سے 21کروڑ عوام کی رائے صحیح معلوم ہو گئی۔ قانونی اور آئینی طور پر تو قومی اسمبلی کا ہر رکن وزیراعظم ہوسکتا ہے کیا سوالنامے میں تمام ارکین قومی اسمبلی کے ناموں کے حوالے سے پوچھا گیایا جتنی پارٹیاں اسمبلی میں موجود ہیں کیا انہوں نے وزیراعظم کیلئے اپنا اپنا امیدوار نامزد کیا اور کیا ان نامزد امیدواروں کے نام سوالنامے میں شامل کئے گئے تیسرا طریقہ یہ ہے کہ شہبازشریف تو قومی اسمبلی کے رکن ہی نہیں تو کیاانہوں نے گلوبل اسٹرٹیجک پارٹنر کو لکھ کر دیا ہے کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اس کیلئے آپ سروے کروادیں۔ اگر یہ سب باتیں نہیں تو پھر سروے صرف اور صرف عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
اس سروے میں ’’ پسندیدہ یونیورس‘‘ سے سوال کیا گیا کہ سیاست سے بالا ترہو کر بتایا جائے کہ بہتر انسان شہباز شریف ہے ،عمران خان یا بلاول، نتائج کے مطابق 65فیصد افراد نے شہباز شریف کو بہتر انسان قرار دیا، 51فیصد عمران خان اور 47فیصد بلاول زرداری کو بہتر انسان قرار دیتے ہیں،بنیادی سوال یہ ہے کہ تینوں افراد سیاسی ہیں تو پھر سیاست سے بالا تر ہو کر ان کو کس معیار کے مطابق بہتر انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ کیا آج تک شہباز شریف نے سیاست کے علاوہ معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی خدمات اگر انجام دیںتو وہ کیا تھیں، اسی طرح بلاول بھٹو جن کا کیرئیر ابھی شروع ہی ہوا ہے اور ان کی اس معاشرے کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی خدمت نہیں البتہ عمران خان ایک ایسی شخصیت ہے جن کا سیاست سے پہلے اور اب سیاست کے دوران عوامی فلاحی کاموں میں بہت بڑا حصہ ہے —کیا اس سروے میں ان تین افراد کے علاوہ 21کروڑ عوام میں سے کوئی سروے کے چنائو کے قابل ہی نہیں تھا ۔ بہتر انسان کیلئے کونسا سائنسی پیمانہ رکھا گیا ۔ کیا یہ معیار ی پیمانہ سوالنامے میں شامل کیا گیا ؟ اس سروے میںپسندیدگی کے حوالے سے شہباز شریف اور عمران خان کے موازنے کا سوال رکھا گیا ۔ جس کے نتائج کے مطابق 53 فیصد شہباز شریف جبکہ 39فیصد عمران خان کو پسندکر تے ہیں —ایسا سوال پوچھتے ہوئے بھی پسندیدگی کی وجوہات پر مشتمل ایک سائنسی پیمانہ رکھا جاتا ہے اگروہ رکھا گیا تھا تو کیا تھا اور ناپسندیدگی کی کونسی وجوہات پوچھی گئی تھیں جو اس سوالنامے میں کیوں درج نہ کی گئیں ۔ کیا یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف نہیں ؟
ایک سوال امن وامان کی صورتحال کے بارے میں تھا جس کو 43فیصد نے بہتر قرار دیا ، اس کو درست سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 57فیصد اسکو خراب سمجھتے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ سروے پاکستان بھر سے کیا گیا ہے اور پاکستان کے مختلف شہروں کی امن و امان کی صورتحال مختلف نوعیت کی ہے ۔ کیا ہر شہر کی اُس نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے علیٰحدہ علیٰحدہ سوالنامہ بنایا گیا تھا؟ اس کیلئے کونسا سائنسی طریقہ اپنایا گیا اور اسکا ذکر اس سروے میں کیوں نہ کیا گیا ؟ پھر اس امن وامان کی صورتحال کا موازانہ کس سے کیا گیا ؟ کیا صوبوں کے درمیان کی امن وامان سے یا گزشتہ حکومت کے کس دور سے اور اس کے انڈیکٹرز اور آج کے انڈیکٹرز کو نسے تھے، اگر کچھ انڈیکٹرز کو لیا گیا تو سوالنامے میں اس کا ذکر کیوں نہیں تھا۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ کی حکومت کو دیگرکے مقابلے میں ویری گڈ قرار دیا گیا ہے کہیں وضاحت نہیں کہ دیگر کس کے مقابلے میں، کیا یہ مقابلہ صوبوں کے درمیان ہے یا گزشتہ حکومت کے مقابلے میں ویری گڈ ہے ۔ایک اور سوال کہ جواب میں 41فیصد نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ میں بہتری آئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ 59فیصد کا کیا خیال ہے ۔بہر حال ایسے مشہوری کم گمراہی سروے گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی زمینی حقائق کے مطابق ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ کروڑوں روپے کے عوض کروائے گئے ان سروے سے کوئی مقبول یا محترم ہوگیا ہے تو یہ کسی پاگل کا خواب ہو سکتا ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ لاہور کے مختلف علاقوں سے اشیاصرف اور مہنگائی کے حوالے سے ایک رینڈم سروے کیا گیا تو 95فیصد نے کہا کہ ان کی آمدنی کے مقابلے میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور تنخواہیں بڑھانے کا پیمانہ مہنگائی سے منسلک کیا جائے۔ چیزوں کے ریٹس کم از کم چھ ماہ یا سال کیلئے فکس ہوں، عوام کی بنیادی ضرورتوں کی معیار کے لحاظ سے فراہمی حکومت اور اسکے محکمے کی ذمہ داری ہے اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو ں تو چھوٹے چھوٹے دودھ فروش یا دکانداروں کیخلاف کارروائی کرنے کی بجائے اس محکمے کے خلاف ایکشن لیا جائے جو اس قابل ہی نہیں تھا کہ چیزوں کو ریگو لیٹ کرسکے۔ جہاں تک سیاستدانوں اور حکمرانوں کے حوالے سے عوامی رائے کا تعلق ہے تو وہ اس وقت تک انکے خلاف ہے جب تک انکوبنیادی ضروریات اور آئینی حقوق فراہم نہیں کئے جاتے ۔ اسلئے گمراہی کے یہ سروے بند کر کے زمینی حقائق کے مطابق اپنی منصوبہ بندی کی جائے!

تازہ ترین