• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں خطرناک اور خودکارہتھیاروں تک آسان رسائی کے باعث عام افراد کے ہاتھوں مجمع پر فائرنگ کے افسوس ناک واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ ماہ اکتوبر کی 2 تاریخ کو لاس ویگاس میں ایک جنونی شخص نے کنسرٹ میں آٹومیٹک گنوں سے فائرنگ کرکے58 افراد کو ہلاک اور کئی کو زخمی کردیا تھا۔ اب ایک ماہ بعد ریاست ٹیکساس کے ایک چرچ میں پیش آنیوالا فائرنگ کاحالیہ واقعہ اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے جس میں27 افراد کے ہلاک اور20 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق واقعہ سین انتونیو کے علاقے سودرلینڈ اسپرنگز کے فرسٹ بیپٹسٹ چرچ میں اس وقت پیش آیا جب وہاں صبح کی دعائیہ تقریب جاری تھی۔ اس موقع پرایک حملہ آور نے چرچ میں اچانک داخل ہوکر اندھادھند فائرنگ کردی۔ عینی شاہدین کے مطابق ہال میں تقریباً50افراد موجود تھے۔ امریکی پولیس نے حملہ آور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا وہ فورسز کی فائرنگ سے مارا گیا یا اس نے خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔ سفید فام حملہ آور کی شناخت تاحال ظاہر نہیں کی گئی جبکہ ٹیکساس کے رکن اسمبلی ویسنیٹ گونزالے نے کہا ہے کہ واقعے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ ماس شوٹنگ کے پے درپے ہونے والے واقعات کے بعد امریکہ کے کئی سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے ہتھیاروں کے لائسنس پر پابندی لگانے اور آرمز قوانین پر نظر ثانی کیلئے موثر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ امریکی حکومت کیلئے بھی ناگزیر ہوگیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی کرتے ہوئے عام شہریوں کی ہتھیاروں تک رسائی مشکل بنائے۔ واضح رہے کہ امریکی آئین اپنے شہریوں کو ہتھیار رکھنے کا حق دیتا ہے۔ اوباما دور میں سینڈی ہک اسکول کے واقعے کے بعد ہتھیار رکھنے پر پابندی کیلئے آرمز قوانین میں ترامیم کی کوشش بھی کی گئی لیکن یہ کوششیں امریکی ایوان اقتدار میں آرمز لابی کے مضبوط اثر و رسوخ کی وجہ سے بار آور نہ ہوسکیں۔

تازہ ترین