• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 لیں جی! پاناما لیکس کے ڈیڑھ سال بعد اب ’’پیراڈائز لیکس‘‘ کا نزول ہے۔ وسل بلورر (ذریعہ بے نقابی) وہی صحافیوں کی عالمی تنظیم، انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ہے جس نے پاکستان سمیت کتنے ہی ملکوں میں احتساب کے دروازے کھول دیئے یا عوامی دوستی کے اس سچے عمل کو تیز تر کردیا۔ امر واقعہ ہے کہ پاناما لیکس کتنی ہی ریاستوں کے مظلوم شہریوں پر مسلط ’’دولت دیوتائوں‘‘ پر قیامت بن کر نازل ہوا، برسوں میں ناجائز دولت سے کمائی اور اب مرتکز دولت سے بنی۔ کرپٹ حکام کی جھوٹی عزت و شہرت دنوں میں تار تار ہوگئی۔ پاکستان میں انہیں سماجی پسماندگی کا کچھ سہارا ضرورملا ہوا ہے جسے نفاذ قانون کمزور کرتا جارہا ہے۔گزشتہ اڑھائی تین عشرے سے دنیا کے اندر دنیا، ’’انڈر ورلڈ‘‘ کے اہل زر کی ناجائز دولت اور یہ جمع کرنے کے ایک سے بڑھ کر ایک شعبدوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ذاتی اغراض کے اسیر بدعنوان حکمرانوں اور ان کے معاونین کا تکبر اور یہ یقین کہ ’’ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، مسلسل پختہ ہوتا جارہا تھا اور ان کی فن کاری کا عالم یہاں تک بڑھا کہ انہوں نے سرمائے کی طاقت سے دنیا بھر میں مانے جانے سیکولر بھارت کے ہندو بنیاد پرست سیاستدان اور گجرات میں مسلمانوں کے قاتل وزیراعلیٰ کو بھارت کا منتخب وزیراعظم بنادیا، جس نے انتخابی نعرہ بھی ’’ہندو توا‘‘ (مکمل ہندو مت کی طرف واپسی) کا لگایا۔ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں بھی این آر او کے شعبدے سے بھاری بھر کم کرپشن کے ریکارڈ کے حامل سابق حکمرانوں اور ان کے حواریوں اور ’’عالم زر‘‘ کے کارندوں کو قلم کی ایک جنبش سے پوتر کردیا گیا۔ گویا ہر طرف سے سوراخ بند کر کے پاکستان میں نظام بد تشکیل دینے والے سابق حکمرانوں کو اک بار پھر بذریعہ این آر او مینڈٹیڈ حکمران بنا دیا گیا، جنہوں نے پاکستان میں اک بار پھرجمہوریت کی گاڑی فقط اس بیانئے پر چلائی کہ ’’بدترین جمہوریت، بہترین ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے‘‘ یہ کہنے کی ہی بات نہ رہی 9سال سے اقتدار کی ہر دو باریوں میں جو دھماچوکڑی مچی اور اس میں کرپشن کا جو بازار گرم ہوا، تفتیش و احتساب کے ریاستی اداروں کو ٹھپ کردیا گیا، قوم کے جمہوری جذبے نے غیر آئینی حکومت کی راہ بند کردی، سو اپنا یہ یقین عوام کے ایک حصے میں پختہ کردیا گیا کہ نظام بد کو نہیں چھیڑا جاسکتا۔ کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن پھر وہ کچھ ہوا اور ہورہا ہے کہ پنجۂ احتساب میں آئے حکمرانوں کی ہررات ڈرائونے خواب لے کر آرہی ہے اور ان کی تعبیر بھی نکلتی جارہی ہے۔ پاناما کیس اور کیا ہے؟ ثابت نہیں ہوتا کہ جب حکمرانوں کا کوئی کچھ بگاڑنے والا نہیں رہتا تو قدرت کے بہت کچھ بگاڑنے کے خطرات منڈلانے لگتے ہیںبشرطیکہ قوم ایک حد تک ہوش میں ہو۔
اب پاناما لیکس کا فالو اپ، پیراڈائز لیکس پوری ابلیسی فنانشل ورلڈ کو بے نقاب کرتی معلوم دے رہی ہے۔ پاناما لیکس کے نزول پر بڑا سوال اٹھا تھا کہ امریکہ (نیویارک) سے لیکس ہونے والے پاناما پیپرز میں کسی امریکن کا نام نہیں، لہٰذا یہ امریکہ کی سازش ہی تو نہیں؟ دل جلوں کا جواب تھا ’’کرپٹ حکمرانوں کی بے نقابی کسی سازش کا بھی نتیجہ ہے تو یہ سازش نہیں غریب دوستی ہے‘‘ دنیا کے ان غریبوں سے جنہیں حاکموں کی لوٹ مار، ٹیکس چوری اور آف شور کمپنیوں میں مرتکز ان کی دولت نے غریب بنایا۔ پاناما لیکس نے بتایا کہ اب پیراڈائز لیکس آئندہ چند روز میں کھل کھلا کر بے نقاب کردیں گی کہ عالمی سطح پر یہ لٹیرے، ٹیکس چور اور غاصب کون کون اور کہاں کہاں ہیں۔ ’’آف شور کمپنی بنانا کوئی قانونی جرم نہیں‘‘۔ کرپٹ حکمرانوں اور ان کے معاونین کا یہ بیانیہ ہے تو درست، لیکن یہ ’’درست‘‘ ریاستوں کی اور پرو مافیا عالمی قانون سازی سے ہی درست ہے۔ پیراڈائز لیکس کی ابتدائی اطلاعات نے 80ملکوں کے غرباء پر واضح کردیا ہے کہ ان کے کرپٹ حکمرانوں سمیت فنانشل ورلڈ کے مافیاز کی کہانی بھی ایسی ہے کہ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں، بڑے میاں سبحان اللہ، گزشتہ رات ورلڈ میڈیا کی نیوز رپورٹس کے مطابق امریکی صدر کی کابینہ کے تیرہ ارکان کے نام بھی پیراڈائز لیکس میں شامل ہیں۔
امر واقعہ ہے کہ کوفی عنان اوردنیا کے چند نیک دل حکمرانوں اور فنانشل ورلڈ کے راز و نیاز سے دل جلے واقفان حال کی نیوے نیوے چلتےہوئے انسداد بدعنوانی کی عالمی کوششوں سے ’’اینٹی کرپشن‘‘ ایک عالمی ایجنڈا تو رواں صدی کے آغاز پر ہی بن گیا تھا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس پر قراردادیں بھی منظور کیں لیکن جیسے پاکستان میں اسٹیٹس کو کی اپنی طاقت ہے اسے توڑنا اور توڑ کر ختم کرنا کسی بڑی جدوجہد سے بھی آسان نہیں، سو پاناما لیکس اور اس کا فالو اپ دنیا بھر کے کھوجی صحافیوں (تفتیشی رپورٹرز) کا وہ کار عظیم ہے جو ’’انسداد کرپشن‘‘ عالمی ایجنڈا کے طور پر تسلیم ہونے کے تقریباً ڈیڑھ عشرے کے بعد انجام دیا جاسکا۔ سرحدوں کے امتیاز سے بالا کھوجی صحافیوں کے عالمی نیٹ ورک نے للکارے بغیر جس پیشہ ورانہ مہارت سے دنیا میں دنیا، انڈر ورلڈ یا فنانشل ورلڈ پر کامیاب وار کئے ہیں، اس میں امریکہ کے ان غرباء کو نہیں بھلایا جاسکتا جو چھ سال قبل ہوم لیس ہونے کے بعد ’’آکوپائے وال اسٹریٹ موومنٹ‘‘ چلانے کی ہمت کے ’’مرتکب‘‘ ہوئے تھے۔ واشنگٹن اور نیویارک میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے، غریب دشمن عالمی مالیاتی نظام کے خلاف جتنا بڑا اور باہمت ردعمل تھا، اتنی ہی مکاری اور بے رحمی سے اسے کچل دیا گیا، اور نام نہاد انٹرنیشنل میڈیا نے اسے ایک عام سے واقعہ کے طور پر رپورٹ کر کے بڑی مکاری سے اس کے فالو اپ سے گریز کیا، گویا ’’فنانشل ورلڈ‘‘ سے نکلی ماس کمیونیکیشن کی ’’تھیوری آف پولیٹیکل اکانومی فار میڈیا‘‘ نے سر چڑھ کر اپنا رنگ دکھایا، لیکن عالمی میڈیا کا ایک نتائج دینے والا پورشن میڈیا لارڈز کے صنعتی مفادات کے باوجود تھیوری آف ایجنڈا سیٹنگ کی اطلاتی شکل میں میڈیا کے ایجنڈے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے، یہ کامیابی اسے پاکستان جیسے مزاجاً جمہوری ریاست میں بھی ملی ہے اور عالمی میڈیا کی سطح پر بھی۔
اس پس منظر میں فنانشل ورلڈ کا مسلسل اور بڑھتا ہوا غلبہ کھوجی صحافیوں کے عالمی نیٹ ورک نے ایک حد تک روک دیا ہے۔ کرپٹ حکمران اور ان کے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں معاون ’’انڈر ورلڈ‘‘ کی طاقت چیلنج ہوگئی ہے، اس کے خلاف اگر ناجائز مرتکز دولت کے استعمال سے مزاحمت کی گئی تو پوری دنیا میں جمہوری نظام چیلنج ہو جائے گا جسے ارتکاز دولت کی بدی سے پہلے ہی اسمگلنگ، ٹیکس چوری، عالمی غربت جہالت، دہشت گردی، انتہا پسندی اور طرح طرح کے جرائم کی شکل میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انسداد کرپشن کے لئے ریاستی اور عالمی سطح کی فوری قانون سازی ہی اب عالمی سیاسی مالیاتی مافیاز اور متحد و منظم کھوجی صحافیوں کی جدل کو کم اور ختم کرسکے گی۔ پاکستان کی سیاسی قوتیں، علمی حلقے اور قومی صحافت ظہور پذیر عالمی منظر کی اس نئی حقیقت کو جتنا جلد سمجھیں گے اوراس کے مطابق پالیسی خصوصاً قانون سازی کریں گے، پاکستان اتنا ہی صراط مستقیم کی طرف جاتا جائےگا۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین