• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 کراچی کا نام بدل کر اسکا اپنا قدیم نام کولاچی رکھنا چاہئے یا کہ نہیں رکھنا چاہئے ؟ بحث کرنے اور لڑنے جھگڑنے کے لئے یہ موضوع مدبروں اور دانشوروں کے لئے مناسب ہے۔ ہم ٹھہرے کند ذہن ،چھوٹی سوچ رکھنے والے ہمیں بات سمجھنے اور بات کی تہہ تک پہنچنے میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔ تب تک کئی اور نام اور شناختیں بدل جاتی ہیں۔ میرے جیسے عام لوگ مخمصوں سے بیزار ہو کر دقیقی باتیں سمجھنے سے گریز کرتے ہیں۔ نواب شاہ صدیوں سے نواب شاہ تھا۔ باہر سے آئے ہوئے سید قبیلے نے آباد کیا تھا۔ تب نواب شاہ چھوٹا سا گائوں تھا۔ انگریزوں کے دور حکومت میں نواب شاہ کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا موقع ملا۔ بینظیر بھٹو کااس شہر اور علاقے سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ ان کے شوہر نامدار آصف علی خان زرداری نواب شاہ کے تھے۔ غیر طبعی اور غیر معمولی موت ایک عام شخص کو بحث مباحثوں کا موضوع بنا دیتی ہے ۔بہت بڑا اور دل دہلا دینے والا ڈرامہ ہوتا ہے۔ غیر معمولی موت میں ! جتنا بڑا ڈرامہ اتنا بڑا اثر محسوس کیا جاتا ہے۔ مختلف صورتوں میں ردعمل سامنے آتا ہے۔ بینظیر بھٹو نامور خاتون تھیں۔ ان کی غیر معمولی اور غیر طبعی موت نے دنیاکو سکتے میں ڈال دیا تھا۔پاکستان میں کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ دنگے فساد ،لوٹ مار، جلائو ،گھیرائو کے بعد واضح اثرات سامنے آنے لگے۔ پیپلز پارٹی کے گرتے ہوئے گراف کو قوم نے جذباتی سہارا دیا۔ صرف اور صرف بینظیر کی بڑے ہی ڈرامائی انداز میں غیر طبعی اور غیر معمولی موت واقع ہونے کی وجہ سے دو ہزار سات کے بعد ہونے والے انتخابات پیپلز پارٹی نے جیت لئے اور پاکستان پر حکومت قائم کر لی۔
گمبھیر اور دکھ بھرے حالات کو Exploit کرنے والوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں ہے بھرپور طریقے سے استحصال کرتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات سے کھل کر کھلواڑ کرتے ہیں۔ پیسہ اور فوائد اینٹھنے کا دیدہ دلیری سے استعمال کیا گیا۔ بینظیر انکم سپورٹ کارڈ کرپٹ بیورو کریسی کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ کلرک تک کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ بینظیر کبڈی ٹورنامنٹ ،بینظیر باکسنگ ٹورنامنٹ، بینظیر لیورڈ ٹورنامنٹ جیسے ہتھکنڈوں سے لیکر گلی کوچوں، بستیوں، بند پڑے ہوئے اسکولوں ،اسپتالوں اور لاوارث اداروں کو بینظیر کا نام دیا گیا۔ نواب شاہ کا نیا نام بینظیر آباد اسی استحصال کی کڑی ہے۔ نواب شاہ بینظیر بھٹو نے آباد نہیں کیا تھا۔ نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے تاریخ کی نفی کی گئی ہے۔
جو کارنامہ جس کا ہے اسی کے نام سے رہنا چاہئے۔ ہر ایک کارنامہ لا محالہ تاریخ کا ان مٹ حصہ بن جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا ،تاریخ کو تبدیل کرنا ،تاریخ میں ردو بدل کرنا اخلاقی، تاریخی اور علمی جرم ہے۔ یہ ذہنی پھکڑ پن ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ جن لوگوں کے پاس دھونس جمانے کی بے انتہا طاقت ہے۔ انہوں نے اب تک جیکب آباد کو نیا نام کیوں نہیں دیا ہے۔ جب نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے بلاول انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ رکھا جا سکتا ہے۔ تو پھر جیکب آباد کا نام بدل کر بلاول آباد یا زرداری آباد کیوں نہیں رکھا جا سکتا ،جب ساہیوال کا نام مونٹٹگمری تھا اور وہاں بننے والی اشیا خاص طور سے بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبے پر شہر مونٹگمری لکھا جاتا تھا ۔تب شاید ہی کسی کو یاد تھا کہ مونٹگمری شہر کی جگہ ایک چھوٹا سا قصبہ یا گائوں تھا۔ اور اس قصبے یا گائوں کا نام ساہیوال تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کراچی جب مچھیروں کی ایک بستی تھی یا گائوں تھا تب کراچی کا نام کولاچی تھا۔ اور یہ کارنامہ بھی انگریز کا تھا جب بھی وہ کسی جگہ، علاقے ،آثار کے بارے میں تحقیق کرتے تھے تب سچائی سے تحقیق کرتے تھے۔ چھپاتے نہیں تھے۔ اب یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ کراچی کا نام تبدیل کر کے کراچی شہر کو اس کا اصلی نام کولاچی دیا جائے۔ اس تجویز کی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس تجویز کے ساتھ حب الوطنی کو نتھی کیا گیا ہے۔ یعنی حب الوطنی کی رو سے لازم ہے کہ ہم غیر ملکی تسلط کے دوران ملک میں آنے والی تبدیلیوں کے آثار اور نشانیاں مٹا دیں یا ان کے نام تبدیل کر دیں۔ چونکہ بات چیت کے دوران حب الوطنی کا حوالہ بیچ میں آ گیا لہٰذا نام تجویز کرنےکی تجویز پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔ بہرحال، نام تبدیل کرنے سے تاریخی حقائق نہیں بدلتے۔ ہندوستان کا یہ حصہ جس پر اب ہمارا ملک پاکستان بنا ہوا ہے۔ معہ تمام ہندوستان کے انگریز کے تسلط میںتھا۔ انگریز نے دو ڈھائی سو برس بھرپور طریقے سے ہم پر حکومت کی تھی۔ یہ تاریخ ہے۔ ہم نے کئی تاریخی حقائق اپنی نصابی کتابوں سے اخذ کئے ہیں یا تبدیل کر دیئے ہیں مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ برصغیر کی تاریخ صرف برصغیر میں نہیں لکھی اور پڑھائی جاتی۔ بر صغیر کی تاریخ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
جو تاریخی ہیرا پھیری مہم اپنی کتابوں میں کرتے ہیں وہ صرف ہم تک اور ہمارے بچوں تک محدود رہتی ہے۔ باقی تمام دنیا میں برصغیر کی تاریخ بغیر کسی ردو بدل کے پڑھائی جاتی ہے۔ آپ دنیا سے کچھ نہیںچھپا سکتے ۔
تاریخی لحاظ سے ہندوستان ہندوئوں کا ملک تھا ہم مسلمان نے تقریباً پانچ سو برس تک ہندوستان اور ہندوئوں پر حکومت کی تھی ہم مسلمانوں کبھی بھی ہندوئوں کے ماتحت ان کے تسلط میں نہیں رہے تھے۔ہم مسلمان حاکم ہوتے تھے اور ہندو ہمارے محکوم ہوتے تھے۔ انگریز نے ہم مسلمانوں سے ہندوستان کی حکومت چھینی تھی۔ ہندوئوں سے نہیں۔ انگریز نے دو ڈھائی برس ہندوستان پر یعنی برصغیر پر حکومت کی تھی۔ کراچی کا نام تبدیل کرنے والی تجویز کے ساتھ ہندوستان کے بڑے شہروں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثلاً بمبئی کا نام تبدیل کر کے بمبئی کو اس کا اپنا اصلی نام ممبئی دیا گیا ہے۔ بنارس کو اس کاقدیم نام ورناسی اور مدرس کو اسکا اپنا پرانا نام چنائے دیا گیا ہے۔اب کراچی کی باری ہے۔ تجویز ہے کہ کراچی کو اسکا اپنا نام کولاچی دیا جائے۔ بات نکلی ہے تو بہت دور تلک جائے گی۔

تازہ ترین