• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کے بعد پیراڈائز ٹھگوں کے لئے ایک اور قبرستان ثابت ہوا ہے۔ ان دو قبرستانوں نے دنیا کے بڑے بڑے ٹھگوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ عالمی فراڈیئے یا ٹھگ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنےملکوں کو لوٹا، اپنی دولت چھپائی، منی لانڈرنگ کی یا پھر اپنے ہی ملکوں میں ٹیکس چوری کی۔ ان لوگوں نے اپنےملکوں کے عوام کو دھوکہ دیا، ان سے جھوٹ بولا، ان سے ناانصافی کی، ٹیکسوں کو چرایا۔ دنیا کا کوئی مذہب جھوٹ، دھوکے اور ناانصافی کا درس نہیں دیتا۔ اسی طرح دنیا کے کسی ملک کے قوانین جھوٹ فریب سمیت ڈاکہ زنی کی اجازت نہیں دیتے۔ نہ ہی اخلاقیات اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نہ ہی اعلیٰ کردار کے لوگوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح کے کام کریں لہٰذا دنیا میں جن لوگوں نے یہ کام کیاہے ان کے کردار بہت پست ہیں۔ میں نے پستی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے ورنہ لوگ تو اسے گھٹیا کہتے ہیں۔
زمانے کے سامنے کیا حالات آگئے ہیں کہ تمام عالمی چور ننگے ہوگئے ہیں۔ ان کی چوریاں جن محفوظ پناہ گاہوں میں رکھی ہوئی تھیں وہ محفوظ پناہ گاہیں اب چوروں کے قبرستان بن گئے ہیں۔ تازہ اور پرانے ناموں کاجائزہ لینے کےبعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان قبرستانوں میں تین طرح کے ملکوں کے لوگوں کے پیسے پڑے ہوئے تھے۔ پہلے نمبر پر غریب ترین ملک، جن کے عوام کے صحنوں میں بھوک رقص کر رہی ہو، ایسے ملکوں کا شمار مقروض ملکوں میں ہوتاہے مگرایسے ملکوں کے حکمران عیاشیاں کرتے نظرآتے ہیں۔ عام طورپر یہ ملک تیسری دنیا کے ملک ہیں۔ دوسرے نمبرپر ایسے ملکوں کے حکمرانوں کی دولت ان قبرستانوں میں پڑی ہوئی ہے جہاں بادشاہتیں ہیں، جہاںبادشاہوں نے اپنے عوام کےہر طرح کے حقوق کو سلب کر رکھاہے۔تیسرے نمبر پر ان ملکوں کے حکمرانوں کی دولت ہے جہاں نام نہاد جمہوریت ہے۔ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر دھوکے کی دکانیں سجاتے ہیں، اپنے لوگوں سے مسلسل جھوٹ بولتے ہیں اور اپنی دولت کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں۔دولت مندی کا رجحان دنیامیں کیپٹل ازم کے باعث بڑھا۔ کیپٹل ازم کے تحت عالمی چکربازوں نے دولت کو چندہاتھوں میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کیپٹل ازم کی یہی بدصورتی ہے کہ اس میں لوگوں کی زیادہ تعداد غریب سے غریب تر ہوتی جاتی ہے اور چند لوگ امیر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں۔ دولت کی اس غیرمنصفانہ چکربازی نے عالمی ٹھگ پیدا کئے اور اب شاید قدرت کو مختلف ملکوں کے غریب عوام پرترس آگیا ہے کہ ٹھگوں کی محفوظ جنتیں ان کے لئے جہنم ثابت ہو رہی ہیں۔ دولت کے پجاری حکمران خود کو اقتدار کے لئے ازحد ضروری سمجھتے ہیں، اقتدار سے چپک کے رہنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ وہ اقتدار میں رہنے کےلئے ہر طرح کا جھوٹ بولتے ہیں۔ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے قوانین بدل دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’دنیا کے قبرستانوں میں ایسے بہت سے لوگ دفن ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘‘
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب ایسے لوگوں کو کوئی عدالت جھوٹا یا نااہل کہے تو وہ عدالتوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ نمونے کے طور پر آپ میاں نواز شریف کی اس گفتگو کا جائزہ لے سکتے ہیں جو نااہل ہونے کےبعد انہو ںنے ایک سرکاری عمارت ’’پنجاب ہائوس‘‘ میں کی۔ ان کا انداز ِگفتگو بہت کچھ بتا رہا تھا۔ گفتگو یوں تھی..... ’’معزز خواتین و حضرات! ایک عدالت نے پٹیشن کو پہلے فضول اور ناکارہ قرار دیا۔ پھر اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت شروع کردی۔ کوئی ثبوت نہ ملا تو اسی عدالت نے پراسرار طریقے سے ایک جے آئی ٹی بنا ڈالی۔ اسی عدالت نے جے آئی ٹی کی نگرانی بھی سنبھال لی۔
اسی عدالت نے کبھی پانچ کبھی تین جج صاحبان کے ساتھ فیصلے بھی سنادیئے۔ پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائرکرو۔ پھر اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ پھر وہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی اور اگر ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی۔ کیا ایسا ہوتا ہے انصاف؟ کیا اسے کہتے ہیں قانون کی پاسداری؟.....‘‘ یہ گفتگو اس شخص کی ہے جو تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہا۔ دو مرتبہ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ رہا۔وزارت ِ اعلیٰ سےپہلے فوجی دور میں صوبے کا وزیر خزانہ رہا پھر ایک طویل عرصے تک ضیاء الحق کامشن پوراکرتا رہا۔ اسی کی پارٹی نے نومبر 1997 میں ملک کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ کیا۔ جب کسی کی ناجائز دولت پکڑی جائے، جب ٹیکس چوری، ڈاکہ زنی ، منی لانڈرنگ اور جھوٹ بے نقاب ہوجائے تو اسے عدالتوں پر شک گزرتا ہے حالانکہ عدالتیں تو صرف انصاف کرتی ہیں۔
سعودی عرب میں بھی کرپشن کے خلاف انقلاب آگیاہے۔ کئی ’’مہنگے ترین‘‘ شہزادے گرفتار ہوچکے ہیں۔ سعودی حکمران خاندان میں میاں نواز شریف کے آخری حامی ولید بن طلال بھی کرپشن کے تحت زیرحراست ہیں۔ پاکستان میں شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نئے انکشافات کے بعد عالمی ٹھگوں پر کیا کہا جاسکتا ہے ، مجھے تو صرف سرور امانؔ کا شعر یاد آتاہے کہ؎
عادت ہے وڈیروں کی بے دام غلاموں کو
قسمت کی لکیروں میں الجھائے ہوئے رہنا

تازہ ترین