• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو کا قیام جنرل مشرف کے دور میں شفاف اور بے لاگ احتساب کے ذریعے ملک کو کرپشن یعنی قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے نجات دلانے کے نام پر عمل میں لایا گیا تھا لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ انہوں نے اس ادارے کو اس کے اصل مقصد سے کہیں زیادہ سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے اور یوں اپنی حکومت کے لیے سیاسی شخصیات کی حمایت حاصل کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا۔ مسلم لیگ (ق) کی تخلیق میں نیب نے جو کلیدی کردار ادا کیا وہ اگرچہ اب تک بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی لیکن ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ سے جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں وہ قومی احتساب بیورو کے ناجائز سیاسی استعمال کا یقینی ثبوت نظر آتی ہیں۔ انویسٹی گیٹو رپورٹنگ میں عالمی شہرت رکھنے والے ادارہ جنگ اور جیو سے وابستہ صحافی عمر چیمہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرف دور میں قومی احتساب بیورو نے دو سو سے زیادہ سیاستدانوں، جنرلوں اور اعلیٰ سول سرکاری ملازمین کے اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے براڈ شیٹ ایل ایل سی نامی ایک آف شور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن یہ تعلق اس وقت مقدمہ بازی پر ختم ہوگیا جب کمپنی نے نیب پر الزام لگایا کہ اس نے کمپنی کی معلومات کو اپنے مطلوب افراد کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے استعمال کیا ہے نیز کمپنی کو وصول ہونے والی رقوم میں سے کمپنی کو وعدے کے مطابق اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا جبکہ نیب حکام کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی سے ملنے والی معلومات کارآمد نہیں تھیں اس بناء پر اس کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کردیا گیا۔ تاہم جب براڈ شیٹ نے نیب کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی تو رپورٹ کے مطابق نیب نے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں براڈ شیٹ کیس میں ماہرانہ خدمات کے حصول کے لیے 2014ء میں ایک اور آف شور قانونی فرم ’’ایپل بائے‘‘ کی خدمات حاصل کیں جس کا ڈیٹا اب افشاء ہوگیا ہے۔براڈ شیٹ اور نیب کی جاری مقدمہ بازی کی دیگر دستاویزات کے علاوہ دی نیوز کے پاس رپورٹ کے مطابق نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان ہونے والا انتہائی خفیہ معاہدہ بھی موجود ہے جس پر جون2000ء میں دستخط ہوئے تھے اور جس کا مقصد پاکستان کے بیرون ملک موجود دو سو سے زائد ناجائز بین الاقوامی اثاثوں اور دولت کا پتہ لگانا تھا تاکہ اسے ملک میں واپس لایا جاسکے۔ٹارگٹ لسٹ میں سرفہرست نواز شریف اور ان کے اہل خانہ تھے۔بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سمیت اس فہرست میں متعدد ممتاز سیاستداں شامل تھے لیکن جنرل مشرف کے کیمپ میں چلے جانے والے گجرات کے چوہدریوں کا نام اس میں نہیں تھا۔ بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) سے وابستہ فہرست میں موجود کئی ممتاز سیاستدانوں نے جنرل مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرکے نہ صرف نیب کے احتساب سے نجات پائی بلکہ اہم حکومتی مناصب کے حقدار بھی ٹھہرے۔تاہم احتساب کے لئے بننے والے اداروں کا مطلق العنان حکمرانوں کے جانب سے سیاسی حمایت کے حصول یا مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی خاطر استعمال کیے جانے کا یہ سلسلہ وطن عزیز میں نیب کی تشکیل سے بہت پہلے سے جاری ہے۔ پروڈا، ایبڈو اور پوڈو کے نام سے بنائے جانے والے قوانین یا ادارے بھی فی الحقیقت مقتدر طاقتوں کے سیاسی مفادات کے لیے وجود میں لائے اور استعمال کیے گئے اور اسی لیے قومی اعتبار سے محروم اور مثبت نتائج کے لحاظ سے غیر مؤثر رہے جبکہ ملک کو قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے فی الواقع نجات دلانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا شفاف، بے لاگ، غیر متنازع اور تمام امتیازات سے بالاتر نظام احتساب نافذ کیا جائے جس کا دائرہ محض سیاستدانوں یا قومی زندگی کے چند شعبوں تک نہیں بلکہ عدلیہ، فوج ، بیورو کریسی، کاروباری طبقے اور میڈیا سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی اور تمام ریاستی اداروں کے وابستگان تک یکساں طور پر وسیع ہو۔ایسا نظام احتساب ہی قوم کا حقیقی اعتبار پاسکتا اور صحیح معنوں میں نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے جبکہ اس کے بغیر کرپشن فری پاکستان کا تصور ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ کے مترادف ہے۔

تازہ ترین