• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 قائداعظم کی اکلوتی بیٹی دینا واڈیا کی گزشتہ دنوں انتقال کی خبر نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح سے محبت کرنے والے ہر پاکستانی کو دکھی کردیا۔ قائداعظم کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے وہ بانی پاکستان کی آخری نشانی تصور کی جاتی تھیں۔ دینا واڈیا15 اگست 1919ء کو لندن میں پیدا ہوئیں اور ابھی وہ صرف ساڑھے نو برس کی تھیں کہ اپنی والدہ رتن بائی جناح کے سائے سے محروم ہوگئیں جو دینا کیلئے بہت گہرا صدمہ تھا۔ ایسے میں باپ محمد علی جناح اور پھوپھی فاطمہ جناح نے بڑے ناز و نعم سے دینا کی پرورش کی۔ رتن بائی جناح کی وفات کے کچھ عرصے بعد 1930ء میں قائداعظم ہندوستانی سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر انگلستان منتقل ہوگئے جہاں ان کی وکالت کے شعبے میں کامیابی سے پریکٹس جاری تھی۔ ایسے میں وہاں ان کا دل بہلانے والی ان کی بیٹی دینا تھی۔ قائداعظم اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے اور باپ کے لاڈ و پیار نے دینا کو خود سر اور ضدی بنادیا تھا۔ قائداعظم کی لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور شبیر عثمانی نے انہیں ہندوستان واپسی پر قائل کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر قائداعظم آمادہ نہیں ہوئے لیکن 1934ء میں قائداعظم جلاوطنی ختم کرکے اپنی بیٹی دینا کے ہمراہ اچانک ہندوستان واپس لوٹ گئے۔ قائداعظم کے قریبی رفقاء نے جب اُن کی اچانک واپسی کی وجہ دریافت کی تو قائداعظم نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لندن سے اچانک واپسی کا فیصلہ سرور کائناتﷺ کے حکم پر کیا۔ قائداعظم نے بتایا کہ ایک رات انہیں خواب میں بشارت ہوئی اور حضور اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ ’’محمد علی! تم فوراً واپس ہندوستان جائو اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرکے ان کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرو، تمہیں اپنے مشن میں کامیابی ہوگی اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ قائداعظم نے اپنے قریبی دوستوں سے یہ وعدہ لیا کہ وہ اس راز کا تذکرہ میری زندگی میں کسی سے نہیں کریں گے۔
قائداعظم کی ہندوستان واپسی کے بعد تحریک آزادی نے زور پکڑا اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کی وجہ سے قائداعظم کو کئی کئی ماہ بمبئی سے باہر رہنا پڑا۔ ایسی صورتحال میں دینا زیادہ تر وقت اپنی نانی کے گھر گزارتی تھی جہاں ان کی ملاقات پارسی صنعتکار نوجوان نوائل واڈیا سے ہوئی جو پارسی مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرچکا تھا۔17 سال کی ناپختہ عمر میں دینا نے نوائل واڈیا کو اپنا جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کیا جس کی ننھیال نے مکمل حمایت جبکہ قائداعظم نے فیصلے کی سخت مخالفت کی اور بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے ہیں، وہ جسے چاہے منتخب کرلے لیکن غیر مسلم سے شادی نہ کرے کیونکہ یہ شادی تمہیں مذہب اسلام سے خارج کردے گی اور تم میری بیٹی نہیں رہوگی کیونکہ ترک مذہب کے بعد اسلام خونی رشتوں کو بھی قبول نہیں کرتا۔‘‘ باپ کی مخالفت کے باوجود دینا نے نوائل واڈیا سے شادی کرلی جس میں قائداعظم شریک نہ ہوئے اور اس طرح باپ بیٹی کے درمیان اتنی خلیج پیدا ہوئی کہ وہ پھر کبھی بیٹی سے نہ ملے۔قائداعظم کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ لندن میں ہونے والی بشارت نے محمد علی جناح میں گویا ایک نئی روح پھونک دی تھی اور تحریک آزادی نے اتنا زور پکڑا کہ بالاخر 14 اگست 1947ء کو 27 ویں رمضان شب قدر کے مبارک دن پاکستان آزاد ہوگیا۔ آزادی کے بعد دینا اپنے شوہر کے ہمراہ بھارت میں ہی رہ گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد دینا واڈیا نے ایک خط اپنے والد کو تحریر کیا کہ ’’میرے پیارے پاپا! میں آپ کو مبارکباد دینا چاہتی ہوں کہ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان بن گیا جس کیلئے آپ نے بے انتہا محنت کی، آج میں بہت فخر اور خوشی محسوس کررہی ہوں۔‘‘
بیٹے اور بیٹی کی ولادت کے کچھ سالوں بعد انہوں نے نوائل واڈیا سے طلاق لے لی۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد ایک انٹرویو میں دینا نے بتایا کہ ’’جب میں نے پاپا کو اپنی شادی کے فیصلے سے آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے انتہائی متانت سے جواب دیا ’’میری پیاری بیٹی، تمہاری ممی نے اسلام قبول کیا اور مجھ سے شادی کیلئے اپنے والد سے اجازت لی، میں بھی تمہیں اس شادی کیلئے اجازت دینے کو تیار ہوں بشرطیکہ تمہارا ہونے والا شوہر اسلام قبول کرلے تاکہ تمہارا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہوسکے کیونکہ مذہبی عقائد میں ہم آہنگی سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت مدد ملتی ہے، کاش میں نے اپنے پاپا کی بات مانی ہوتی۔‘‘ دینا کا خیال تھا کہ وہ علیحدگی کے بعد زندگی کے آخری ایام بمبئی کے اُس ’’جناح ہائوس‘‘ میں بسر کریں گی جو اُن کے والد نے بنوایا تھا مگر بھارتی حکومت کے ’’جناح ہائوس‘‘ پر قبضے کے باعث دلبرداشتہ ہوکر انہوں نے بھارت چھوڑ کر نیویارک میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور باقی زندگی تنہائی میں گزاردی اور وہیں اُن کی وفات ہوئی۔ 2002ء میں برطانوی تاریخ دان اینڈریو وائٹ ہیڈ کو دیئے گئے انٹرویو میں دینا واڈیا نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ مخلص لیڈروں کی کمی کے باعث پاکستان میں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح جمہوریت پنپ نہ سکی جس پر انہیں افسوس ہے۔
دینا کی وفات سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ قائداعظم نے اسلامی اصولوں کی پاسداری میں اپنے قریب اور عزیز ترین تعلق کو بھی ترک کردیا اور اپنے مذہب کے تقدس کی خاطر اپنے خونی رشتوں سے بھی لاتعلقی اختیار کرلی جس پر وہ آخری سانس تک قائم رہے۔ دینا، قائداعظم کی زندگی کے آخری لمحات میں ان سے ملاقات کرنا چاہتی تھیں مگر قائداعظم کے انکار کے باعث یہ ممکن نہ ہوا تاہم قائداعظم کی وفات پر انہوں نے تدفین میں شرکت کی۔ بعد ازاں 2004ء میں وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ کراچی آئیں اور مزار قائد پر حاضری کے بعد وزیٹر بک پر اشک آلود آنکھوں سے تاثرات قلمبند کئے کہ ’’میرے لئے یہ انتہائی اداس لمحہ ہے، خدا پاکستان کے بارے میں جناح کے خواب کو پورا کرے۔‘‘
مائیں اکثر اپنے بچوں کو یہ دعائیں دیتی ہیں کہ ان کی عمر بھی ان کے بچوں کو لگ جائے۔ شاید یہی کچھ دینا واڈیا کے معاملے میں بھی ہوا جن کی ماں کا انتقال صرف29 سال کی عمر میں ہوا جبکہ ان کی اکلوتی اولاد دینا نے98 سال کی عمر پائی اور نیویارک میں ان کی تدفین میں ان کے بیٹے، بیٹی اور پوتے نے شرکت کی۔ تدفین میں حکومت پاکستان کی طرف سے کسی اہم شخصیت نے شرکت نہیں کی تاہم صدر مملکت، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے تدفین کے موقع پر گلدستے بھیج کر اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں۔ دینا کی وفات کے بعد قائداعظم سے نسبی تعلق اور ان سے بہت زیادہ مشابہت رکھنے والی شخصیت دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اللہ اُن کی روح کو سکون بخشے۔

 

تازہ ترین