• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے مشہورمعاشی ادارے اسٹینڈرڈ اینڈ پوور نے پچھلے دنوں پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کافی صحت مندی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی معیشت پر موجودہ نام نہاد سیاسی بحران کا اثر پڑے گا اور نہ ہی 2018 کے انتخابات اسے متاثر کر سکیں گے۔ یہ رپورٹ پاکستانی میڈیا میں پیش کی جانے والی مایوس کن صور حال کی نفی کرتی ہے۔ پاکستانی میڈیا اور دانشور حلقے پاکستان کی معاشی ترقی کے مسلسل آگے بڑھنے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی اور سماجی بیانیہ اس قدر منفی رہا ہے کہ اس کی موجودگی میں معاشی ترقی ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان کی معیشت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے ، اس کے درمیانے طبقے میں مستقل توسیع ہوتی رہی ہے اور دنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی معیشت دنیا میں بیسویں نمبر تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان کی معاشی ترقی کی دو متضاد کہانیاں ہیں ۔ ایک تو قومی سطح کے اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق پاکستان مستقل بحران کا شکار نظر آتا ہے اور دوسری طرف زمینی صورت حال ہے جو مسلسل معاشی ترقی کی تصویر پیش کرتی ہے۔ بہت سے لوگ ایک ہی سانس میں یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ پاکستان میں لوگوں کے پاس بہت دولت ہے۔ دن بدن پھیلتے ہوئے بازار اور ان کی رونقیں، مہنگے سے مہنگے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں لوگوں کا رش ایک خوشحال معاشرے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خوشحالی پاکستان کے ایک محدود طبقے تک محدود ہے لیکن غور سے دیکھیں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ایک طبقہ بہت زیادہ امیر ہوگیا ہے اورامیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھا ہے لیکن پاکستان کے اکثر علاقوں میں دیہی سطح پر بھی معاشی ترقی کے نتیجے میں مکمل کایا کلپ نظر آتی ہے۔ زیادہ تر دیہاتوں میں شہروں جیسی سہولتیں میسر ہیں۔
پاکستان کی معاشی ترقی کے بیانئے کے بارے میں مسلسل شکوک و شبہات سیاسی اور سماجی اداروں کی شکست و ریخت کا نتیجہ ہیں۔ ستر کی دہائی کے آخر سے جو مارشل لا کا دور شروع ہوا اس سے ریاست کے تمام ادارے تباہ و برباد ہوتے گئے۔ پاکستان میں اسلامائزیشن، فرقہ واریت ، لسانی تفرقات ، افغان جہاد اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کی فضا کا پیدا ہونا منفی سیاسی صور ت حال کے آئینہ دار تھے۔ لیکن اسی دور میں اربوں ڈالر کی بیرونی امداد اور تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقومات سے پورے معاشی نظام میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ اس پورے دور میں پاکستان ہی نہیں پورے بر صغیر میں بنیادی معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ زراعت میں مشینی پیداوار کے عام ہونے سے ہزاروں سال سے قائم خود کفیل زرعی نظام ختم ہو گیا اور اس کی جگہ منڈی کا نظام آگیا۔ نہ صرف وسیع پیمانے پر شہروں کی طرف نقل مکانی شروع ہو گئی بلکہ خود دیہات بھی شہروں کی آبادیاں بن گئے۔ غرضیکہ ایک تجارتی اور صنعتی انقلاب کا آغاز ہو گیا جو کہ اب تک جاری و ساری ہے۔
ضیاء الحق کے دور میں ایک طرف تو سیاسی اور دوسرے ریاستی ادارے تنزل پذیر ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معیشت کی کایا کلپ ہوئی جس سے بے پناہ دولت پیدا ہوئی۔ اسی نئی دولت کی تقسیم کے لئے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ اس بہتی گنگا میں سارے حکمران طبقے نے اپنے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ظاہراً تو یہ ایک کرپٹ نظام تھا لیکن کرپشن کے باوجود معاشی ترقی جاری رہی۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ معاشی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے پناہ دولت خود کرپشن کا ایک بہت بڑا سبب بنی۔ چنانچہ جب ضیاء الحق کا دور ختم ہوا اور ایک دہائی کے قریب سویلین حکومتیں قائم ہوئیں تو کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے کلچر میں مزید اضافہ ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک مرتبہ پھر سے بیرونی امداد کا ٹیکا لگا جس سے معاشی ترقی کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی بھی پھیلی جس سے معاشی ترقی کی وہ منازل طے نہ کی جا سکیں جو چین اور ہندوستان نے کیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ معاشی ترقی کسی نہ کسی سطح پر جاری رہی۔
پچھلے نو سالوں میں پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی جس میں گورننس بہت بری تھی اور نتیجتاً معاشی اشاریے بھی بہت زیادہ مثبت نہیں رہے۔ پچھلے چار سالوں میں فوج نے کراچی سے لے کر فاٹا تک دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کچھ ترقیاتی منصوبے بھی کامیابی سے مکمل کئے اور بجلی کی پیداوار بڑھا کر لوڈ شیڈنگ میں مقدور بھر کمی کی ہے۔ چنانچہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے کہ چار سالوں میں اسٹاک مارکیٹ انڈکس 19000کی سطح سے 54000حد تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی معیشت کے بارے میں بہت مثبت رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ نواز شریف کی معطلی کے بعد اسٹاک انڈکس گر کر چالیس ہزار کی سطح پر آگیا ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ عارضی ہے یا یہ مستقبل میں معیشت کے منفی رجحان کی نشاندہی کر رہا ہے۔
جہاں تک اسٹینڈرڈ اینڈ پوور رپورٹ کا تعلق ہے اس کے مطابق یہ عارضی رجحان ہے اور پاکستان کی مستقبل کی معاشی جہت کافی پر امید ہے۔غالباً یہ نتیجہ اس بنیاد پر نکالا گیا ہے کہ پاکستان نے بد ترین سیاسی اور سماجی حالات میں اتنی معاشی ترقی کی ہے تو اب پر امن حالات میں ایسا کیوں نہیں ہوگا۔ پاکستانی معیشت کے ناقدین کو غور کرنا چاہئے کہ کس طرح ایک طرف ہم جہادی پروجیکٹوں میں ملوث رہے لیکن دوسری طرف معیشت پھر بھی اتنی ترقی کرتی رہی ہے کہ جن گھروں میں سائیکل نہیں ہوتی تھی وہاں موٹر سائیکلیں اور کاریں آگئی ہیں۔ اربوں کی کرپشن اور لوٹ مار بھی اس لئے ممکن ہے کہ معیشت میں کھربوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان میں سیاسی اور دوسرے ریاستی ادارے اپنے فرائض منصبی ٹھیک طریقے سے چلائیں تو پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار ہندوستان اور چین کے برابر ہو جائے گی۔

تازہ ترین