• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے کہا ’’ادھر دیکھو۔ وہ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن چکا ہے۔ مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں کہ پاکستان کی تقدیر بدل گئی ہے۔ بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں جیسے اب لوڈشیڈنگ کہیں نہیں ہوگی۔ ایم این ایز ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارک بادیں دے رہے ہیں جیسے اب وہ ہمیشہ اپنے محبوب قائد کے ساتھ رہیں گے۔ کالے بوٹوں سے الرجک کیبنٹ کچن میں داخل ہو چکی ہے جیسے جوتے ہمیشہ کیلئے سفید ہوگئے ہیں۔ ‘‘
میں نے کہا۔ ’’ہاں یہ منظر یاد ہے۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’اگر نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو یہ واقعہ چوتھی بار بھی ہوسکتا ہے۔‘‘میں نے کہا مسئلہ وزیر اعظم بننے کا نہیں۔ وزیراعظم تو شاہد خاقان عباسی بھی ہیں۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تو ایک نون لیگی نے کہا تھا ’’راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ عہدہ نواز شریف کے قابل نہیں رہا۔ چلو کوئی بات نہیں وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کو دوچار بار آبِ زمزم سے دھو کر پاک صاف کرلیں گے۔ سنا ہے یوسف رضا گیلانی کے جانے کے بعد پرویز اشرف نے بھی وزیر اعظم ہاؤس کے ہر کمرے میں ایک مولوی صاحب سے بلائیں ٹالنے والی دعائیں پڑھائی تھیں اور ایک مولوی تو نواز شریف نے بھی رکھ لیا تھا۔ چار سالوں سے وزارتوں اور پرمٹوں کی قیمت پر دعائیں پڑھنے کا عمل اب تک جاری ہے۔
کسی زمانے میں ایک مجذوب سابق صدر زرداری نے بھی صدر ہاؤس میں رکھا ہوا تھا۔ پہلی بار میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا’’میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ اس عمارت میں آصف علی زرداری پورے پانچ سال قیام کریں گے۔‘‘ پیر اعجاز کا کہا ہواپورا ہو ا تھا۔ جمہوریت کی بقا کیلئے صدر زرداری چاہتے تووہ تحفے کے طور پر پیر اعجاز کو نواز شریف کے پاس وزیراعظم ہاؤس میں بھیج دیتے ویسے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیر اعجاز ہے بڑی چیز۔ ایک دن میں نے انہیں کہا ’’لوگ کہتے ہیں آپ مجذوب ہیں‘‘ تو کہنے لگے’’لوگ غلط کہتے ہیں مجذوب صدرہاؤس میں نہیں رہا کرتے‘‘ میں نے کہا ’’مگر لوگ صدر ہاؤس میں پلاسٹک کے چپل اورکئی دن کے میلے کپڑے پہن کر بھی نہیں رہا کرتے‘‘ تو اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’ چلو بھئی کسی اور ہائوس۔ منصور ہمیں صدر ہاؤس نہیں رہنے دے گا۔ ‘‘
کہتے ہیں’’ہما‘‘ نام کا ایک پرندہ جس کے کندھے پر آکر بیٹھ جاتا ہے وہی بادشاہ بن جاتا ہے یقینااس پرندے کے ساتھ نواز شریف کے بڑے اچھے مراسم ہیں پانچ سال پہلے یہی پرندہ آصف علی زرداری کے کندھے پر آکر بیٹھا تھا۔ اب جب ان کی صدرات کے پانچ سال پورے ہورہے ہیں تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ زرداری صاحب بھی بنیادی طور پر فقیر آدمی ہیں۔ وہی فقیر جسے بادشاہ بنادیا گیا تھا۔ پرانے زمانے کی بات ہے ایک شہر کا بادشاہ مر گیا رواج کے مطابق صبح سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے والے شخص کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ وہ اتفاق سے فقیر تھا فقیر نے تخت نشیں ہوتے ہی حلوہ پکانے کا حکم جاری کردیا۔ فقیروں کی دعوتیں ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ کاروبارِ مملکت میں فقیر کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حالات ابتر ہوتے گئے۔ خبر آئی کہ ہمسایہ ملک کی فوجیں حملہ آور ہونے والی ہیں۔ بادشاہ نے کہا حلوہ پکاؤ۔ پھربتایا گیا کہ فوجیں قریب آچکی ہیں بادشاہ نے کہا حلوہ پکاتے رہو۔ اطلاع دی گئی کہ فوجوں نے شہر پناہ کا محاصرہ کر لیا ہے۔ بادشاہ نے کہا اور زیادہ حلوہ پکاؤ۔ پھر بتایا کہ فوجیں شہر میں داخل ہونے والی ہیں۔ بادشاہ نے وہی پرانا کمبل اٹھایا اپنے فقیری کے دنوں والے کپڑے پہنے کاسہ ہاتھ میں لیا۔ اور کسی اور شہر کے سفر پر روانہ ہوگیا۔
بہرحال تیرہ چودہ سال لگے ہیں ٹرین کو واپس پٹری پہ چڑھتے چڑھتے خدانخواستہ اب اگر اتری تو اس زندگی میں واپسی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ سو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اُسی احتیاط کی۔ جسے آج کے سقراط نے یہ کہتے ہوئے اپنا لیا تھا
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
میرا گھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
کاشغر سے گوادر تک پھیلی ہوئی ریلوے لائن کا وزیر اعظم چوتھی بار وزیر بن سکتا ہے۔ میرےخیال میں یہ خیال اب خیال ہی ہے۔ اگر نواز شریف یہی کچھ کر جائے تو کم از کم آئندہ مریم نواز کے وزیراعظم بننے کیلئے تو راہ ہموار ہو جاتی۔ آج کل پھر لوڈ شیڈنگ شروع ہے مجھے لگتا ہے کہ ایرانی گیس کے بغیر لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی اور امریکہ بہادر کے ساتھ یہ معاملہ تو اقتدار میں آنے سے پہلے طے کردیا گیا تھا۔ سو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اگلے پانچ سال سے پہلے ممکن نہیں۔ نئے انتخابات کے امکانات بہت روشن ہیں اور اس میں عمران خان کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے اسٹیبلشمنٹ بھی شاید سو چ رہی ہےکہ ایک بار عمران خان کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملنا چاہئے۔ سو وہ بھی راستے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ کیئر ٹیکر حکومت بنانے کا شور و غوغا صرف اس لئے کہ توجہ کسی اور طرف مبذول رہے۔ فوری انتخابات کی صورت میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ مل کر بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یہ صورت حال پاکستان میں تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی مسلسل جلسے کئے جا رہی ہے۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کافی عرصہ سے شروع کر رکھی ہے اوربڑی کا میابی کے ساتھ۔

تازہ ترین