• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس کی یہ ہمت کہ وہ ہمارا شعور جگائے؟ کون ہے جو ہماری بگڑی عادتوں کو ٹھیک کرنے کا ارادہ کر رہا ہے؟ کسی کی ایسی جرات کہ وہ ہمارے ذہن اور سوچ تبدیل کرے؟ ہم تبدیل ہوئے تھے اور نہ ہی کبھی تبدیل ہو سکتے ہیں، اپنی ساری طاقت لگا لو، اختیارات استعمال کر لو، دولت، ہیرے جواہرات اور سونا چاندی پیش کر لو، ہمیں ہمارے بچوں کے تابناک مستقبل کا لالچ دو، قرضوں سے نجات دلانے کے طریقے بتاؤ، لاء اینڈ آرڈر کو دُرست کرنے کا اعلان کرو، مہنگائی کو ختم کرنے کا عندیہ دو، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی نوید سناؤ، لاشوں، پاکستانی نوجوانوں، بوڑھے ماں باپ اور پاکستان کی سرزمین کا سودا کرنے والے ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہمیں مطلع کرو، یعنی جو کرسکتے ہو کرلو ہم سُدھرے تھے اور نہ ہی کبھی سُدھرنے کی کو شش کریں گے۔ میرا تعلق زمین نامی اُس سیارے سے ہے جہاں 1947میں لا الہ الااللہ کے نام پر ایک ملک پاکستان معرض وجود میں آیا تھا، افسوس کہ میں پاکستان کے وجود میں آنے کی ضرورت کو بھول گیا، میں پاکستان کا سپوت ہوں، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں کسی شریف، پڑھے لکھے اور ایماندار شخص کو ووٹ کی طاقت سے ملک کا قانون بنانے والی فیکٹری (پارلیمنٹ) میں داخل نہیں ہونے دوں گا، اور پھر اعتراض بھی کروں گا کہ پاکستان میں اتنی کرپشن کیوں ہے؟ یہاں مہنگائی، دہشت گردی اور لاقانونیت کا جن بوتل میں بند کیوں نہیں ہوتا؟ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہمارے حکمران کسی دُوسرے سیارے سے منتخب ہو کر آتے ہیں اُن کا زمین سے کوئی تعلق نہیں، لیکن یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اُنہیں میں نے خود منتخب کر کے اپنے اُوپر مسلط کیا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میرا تعلق کسی قوم سے ہے کیونکہ پاکستان میں قوم نہیں بلکہ مختلف گروہوں کا ایک ہجوم ہے جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اُس نے کس سمت جانا ہے، میں پاکستانی ہونے کے ناطے خود کو پاکستان کے اِن حالات کا ذمہ دار سمجھتا ہوں، ہمارے ملک کا قوم نامی ہجوم اِس قابل کہاں، کہ اُسے مثبت ہدایات دی جا سکیں، ہم تو گھر سے والدہ کی دوائی لینے جائیں تو راستے میں چند افراد اکھٹے کئے ’’مداری‘‘ کی بات سننے اور سمجھنے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ’’ڈگڈگی‘‘ بجا کر کہتا ہے کہ میں آپ کو تین منہ والا سانپ دکھاؤں گا، ہم کئی گھنٹے اِس اُمید پر کھڑے رہتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ہمیں سانپ دکھایا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ مداری اپنا ’’چورن اور منجن‘‘ بیچ کر چلتا بنتا ہے۔ ہمارے سیاستدان تو بہت بڑے مداری ہیں، ان کے پاس تین منہ والا سانپ روٹی، کپڑا اور مکان کی صورت ہر دور میں موجود رہتا ہے، یہ ایسی ڈگڈگی بجانے کے ماہر ہوتے ہیں کہ جس سے چند افراد نہیں بلکہ لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جائے، یہ مداری بھی اپنا چورن اور منجن بیچ کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں، دوبارہ اِن سے ملاقات آئندہ الیکشن کے قریب ہوتی ہے، نہ ملنے کی شکایتیں اور غربت ختم کرنے کے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے شکوے، سیاستدان آئندہ کے لئے سب کچھ ’’اوکے‘‘ کا نیا وعدہ کر کے ایسی ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ ہمارے گلے شکوے اِس طرح ختم ہوتے ہیں کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں، اب بھی میں اپنے آپ کو قصوروار نہ کہوں؟ ہم گلی میں ٹرانسفارمر کو ٹھیک کرنے والے واپڈا کے ملازمین کو دیکھتے رہتے ہیں، اپنے تمام کام بھول جاتے ہیں جبکہ وہاں ہمارے بغیر بھی ٹرانسفارمر ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ہمارا تعلق ایسے ہجوم سے ہے جو دانت صاف کرنے والے بُرش کو پُرانا ہونے پر پھینکتے نہیں، اُس سے بالوں کو خضاب لگانا شروع کر دیتے ہیں، جب بُرش بالکل ناکارہ ہو جائے تو اُس کے ایک طرف سوراخ کر کے شلوار میں ڈالنے کے لئے اُسے ’’نالہ پونی‘‘ بنا لیتے ہیں۔ ہم ایسے ’’بد خبرے‘‘ ہیں کہ کوئی موٹر سائیکل دھو رہا ہو تو اُس سے جا کر کہتے ہیں ’’کیا ہو رہا ہے جناب‘‘۔ گھر میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ کام نہ کرے تو اُس کے سیل تبدیل نہیں کرتے بلکہ اُس کو زور زور سے ہاتھوں پر مارتے ہیں کہ شاید کام کرنا شروع کر دے، اب ایسے بکھرے ہوئے ’’بد خبرے‘‘ ہجوم کو کوئی تبدیل کر سکتا ہے؟ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب نے 2013کے قومی انتخابات میں تقاریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں لاہور کی سڑکوں پر آصف علی زرداری کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹوں گا اور اُس سے قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کروں گا، اگر میں ایسا نہ کر سکا تو میرا نام تبدیل کر دینا۔ ہماری قوم نے بلکہ پاکستان کے بکھرے ہجوم نے شہباز شریف کا نام تبدیل نہیں کیا۔ پھر چائنا والوں نے میٹرو سروس ملتان کا کرپشن پر مبنی اسکینڈل پکڑا اور اُس میں براہ راست وزیراعلیٰ شہباز شریف کا نام آیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے اِس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں کسی قسم کے کرپشن اسکینڈل میں ملوث پایا جاؤں تو میرا گریبان پکڑا جائے اگر میں فوت ہو جاؤں تو میری لاش کو قبر سے نکال کر کسی کھمبے پر لٹکا دیا جائے، ہمارا ’’بد خبرا‘‘ ہجوم بھی کتنا بھولا بھالا ہے، بندہ پوچھے کہ جتنی سیکورٹی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوتی ہے اُس سیکورٹی کے ہوتے ہوئے کوئی وزیراعلیٰ کا گریبان کس طرح پکڑ سکتا ہے، سیکورٹی تو کسی کو آگے جانے دے گی نہیں؟ یعنی جو ہجوم وزیراعلیٰ شہباز شریف کا نام تبدیل نہیں کر سکا وہ ’’بیچارا ہجوم‘‘ اُن کے گریبان تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ کیا اب بھی میں اپنے آپ کو ’’بد خبرا‘‘ نہ کہوں اپنے آپ کو قصوروار نہ ٹھہراؤں؟ آصف علی زرداری، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، الطاف حسین، ایم کیو ایم کے تمام بھائی، ماڈل ایان علی، پرویز مشرف، اسحاق ڈار اور دیگر آزاد گھوم رہے ہیں اور پاکستان کا وہی ہجوم ان کے آگے بھنگڑے ڈالتا ہے، انہیں ووٹ دیتا ہے تو کیا اب بھی میں اپنے آپ کو قصوروار نہ کہوں؟ نااہل وزیراعظم جی ٹی روڈ سے لاہور آتے ہیں وہی بدخبرا ہجوم ان کو خوش آمدید کہتا ہے تو اُس ہجوم میں ہوتے ہوئے میں خود کو قصوروار کیسے نہ کہوں؟ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بات بات پر یو ٹرن لیتے ہیں، وہ مختلف اسکینڈلز کی زد میں ہیں، عدلیہ اور پاک آرمی کے خلاف اُن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، اِس کے باوجود میں اُن کے جلسوں میں موجود ہوتا ہوں، اُن کو ووٹ دیتا ہوں، کیا میں قصوروار نہیں؟ اگر میں یہ سوچ کر میاں برادران کو منتخب کروں کہ وہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں، آصف زرداری کو یہ سوچ کر منتخب کروں کہ وہ غریبوں کے ہمدرد ہیں، عمران خان کو موقع نہیں ملا اُسے وزیراعظم بننے کا موقع ملنا چاہئے، ایسی سوچ کے تحت اگر ہم حکمرانوں کو منتخب کریں گے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ لہٰذا آج سے مجھے پاکستان کی ’’من حیث القوم‘‘ کا نہیں بلکہ ’’من حیث الہجوم میں کا ایک ’’بد خبرا‘‘ اور جاہل ووٹر پکارا جائے۔

تازہ ترین