• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی حکمراں جماعت کے سربراہ اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار پاکر وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہونے والے سیاسی لیڈر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے متعدد ارکان کے خلاف پاناما پیپرز کے افشاء کے بعد احتساب کے لیے شروع ہونے والی تحریک اور پھر احتسابی و عدالتی کارروائی نے کم و بیش پچھلے ڈیڑھ سال سے پورے کاروبار مملکت کو غیر معمولی صورت حال سے دوچار کررکھا ہے۔ گزشتہ روز بھی شریف خاندان کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے کی گئی اپیل پر تفصیلی فیصلہ سنایا گیاجس کی رو سے عدالت اپنے سابقہ فیصلے میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی کیونکہ اس کے اندر کسی غلطی کی نشان دہی نہیں کی جاسکی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ، عوام حتیٰ کہ عدالت کو بھی سچ بتانے کے بجائے بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ احتساب عدالت پر سپریم کورٹ کے جج کو نگراں مقرر کیے جانے پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں اور اس کا مقصد صرف شفاف ٹرائل کو یقینی بنانا ہے جبکہ مقدمے کی تکمیل کے لیے چھ ماہ کی مدت کے تعین پر فیصلے میں صراحت کی گئی ہے کہ اس طرح غیرضروری طوالت کا راستہ روکنے کی تدبیر کی گئی ہے لیکن اگرجائز اسباب کی بناء پر مدت میں اضافے کی ضرورت ہوئی تو عدالت کو اسے بڑھانے کا اختیار حاصل ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ احتساب عدالت سپریم کورٹ کی آبزرویشنز سے متاثر ہوئے بغیر اور کمزور شواہد کو مسترد کرنے کے اختیار کے ساتھ مقدمے کی سماعت کا مکمل اختیار رکھتی ہے لہٰذا ملزمان کے لیے کسی تحفظ کے بغیر اپنا مقدمہ لڑنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔جبکہ سابق وزیر اعظم نے اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک کے سابق آمر حکمرانوں کی طرح جن کے آئین شکن اقدامات کو ماضی میں عدالتیں تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں، عدالت سے فرار کی راہ اختیار نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ صاف اور ضمیر مطمئن ہونے کے دعوے کے ساتھ عدالتوں سے انصاف ملنے کی امید اور اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ احتساب کے اس عمل سے سرخ رو ہو کر نکلیں گے۔ ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے شفاف اور بے لاگ احتساب بلاشبہ ہماری ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے حکمراں خاندان کے احتساب سے جس سلسلے کا آغاز ہوا ہے اس کا شفافیت اور غیرجانبداری کے مکمل اہتمام کے ساتھ نہ صرف شریف فیملی کے معاملے میں پایہ تکمیل تک پہنچنا ضروری ہے بلکہ سیاسی شخصیات سمیت ان تمام ممتاز افرادتک اس کا دائرہ وسیع کیا جانا بھی قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں خواہ ان کا تعلق فوج، عدلیہ، کاروبار، تجارت اور میڈیا سمیت کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔ یہ شکوہ یقیناًخلاف حقیقت ہے نہ بے جا کہ ہماری پوری قومی تاریخ میں اہل سیاست تو ہمیشہ احتسابی عمل سے گزرتے رہے جو بسا اوقات شفافیت اور غیرجانبداری کے تقاضوں سے بھی عاری رہا لیکن آئین شکنی کے مرتکب آمروں اور طاقتور ریاستی اداروں کے کرپشن اور دیگر معاملات کے حوالے سے مشتبہ افرادکسی قابل ذکر احتسابی عمل سے بالاتر رہے۔اس صورت حال کا ازالہ معاشرے میں مکمل عدل کے نفاذ کے لیے ناگزیر ہے اور بلاامتیاز احتساب ہی ملک کی بقا اور سلامتی و استحکام کا ضامن ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا اہتمام بھی ضروری ہے کہ احتساب کا یہ عمل ملک کے آئینی اور جمہوری مستقبل کے لیے خدشات کے بجائے استحکام اور مضبوطی کا سبب بنے ، اس کی بناء پر آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں اور وقت مقررہ پر الیکشن کا انعقاد متاثر نہ ہو، معیشت کا پہیہ بھی رواں دواں رہے ، حکومت کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں افراتفری کی کیفیت پیدا نہ ہو اور وسیع تر قومی مفادات کسی طور نظر انداز نہ ہونے پائیں۔

تازہ ترین