• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب کے شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش یا سیاست ان دنوں عالمی میڈیا میں نمایاں ہے۔ سعودی عرب مڈل ایسٹ کا وہ خوش قسمت ملک رہا ہے جو آس پاس کی خونریز تبدیلیوں کے باوجود ایک نوع کے سیاسی استحکام کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا شاہ عبدالعزیز سے لے کر شاہ سلمان کے موجودہ دور تک اگر ہم جائزہ لیں تو بلاشبہ داخلی و خارجی مسائل ضرور پیدا ہوئے لیکن ایک نوع کی یگانگت کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے رہے ۔ بانی سلطنت کو 1932ء سے 53ء تک سعودی بادشاہت کو مستحکم کرنے کے وسیع مواقع حاصل ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 53ء سے 64ء تک عنانِ اقتدار سنبھالے رکھی لیکن شاہ فیصل کی قیادت میں سدیری خاندان نے جو قبائلی پسِ منظر میں زیادہ اثر و رسوخ کا مالک تھا شاہ سعود کو معزول کرتے ہوئے بادشاہت سنبھال لی واضح رہے کہ شاہ عبدالعزیز کی مختلف بیویوں میں سے ایک سدیری خاندان سے تھی جس کے سات بیٹے دیگر پر حاوی رہے۔ موجودہ شاہ سلمان بھی اسی شاخ کا حصہ ہیں۔ شاہ فیصل مرحوم بھی اسی خاندانی چپقلس میں اپنے بھتیجے کے ہاتھوں 1975ء میں قتل کر دیے گئے تھے۔ ان کے بعد شاہ خالد نے 1982ء تک اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز نے 1982سے2005تک طویل حکمرانی کی ۔ جنوری2015میںشاہ عبداللہ کی وفات کے بعد موجودہ شاہ سلمان برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے سابقہ روایات کو بڑی حد تک تبدیل کر دیا۔ انہوں نے نائب ولی عہد کا عہدہ تشکیل دیتے ہوئے اپنے بیٹے محمد کو جسے مغربی میڈیا میں MBS لکھا جاتا ہے محض 29سال کی عمر میں نہ صرف نائب ولی عہد بنایا بلکہ نائب وزیراعظم اور دنیا کے کم عمر ترین وزیر دفاع کے علاوہ کئی ذمہ داریاں ان کو تفویض کی گئیں۔ اسی وقت محسوس کیا جا رہا تھا کہ اب سعودی قیادت بزرگوں کی بجائے نوجوان نسل کو منتقل ہونے جارہی ہے۔ سعودی حکمرانی میں امریکی اثرو رسوخ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے اور یہ بانی سلطنت شاہ عبدالعزیز کے دور سے پیہم جاری و ساری ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ سعودی عرب میں سیال سونے کی برکت سے مال و دولت کی جو ریل پیل ہوئی ہے اس کا باعث بھی امریکی کمپنیوں کی محنت اور جدید تکنیک کا استعمال ہے بہرحال بڑی عالمی طاقت کی منظوری سے اس سال جون میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بھتیجے 57 سالہ محمد بن نائف کو ہٹاتے ہوئے اپنے بیٹے 32سالہ محمد بن سلمان کو ولی عہدِ سلطنت مقرر کر دیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو موجودہ سعودی عرب میں ایک کرشماتی شخصیت کے طور پر دیکھا یا دکھایاجا رہا ہے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ 31اگست 1985ء کو پیدا ہونے والا یہ نوجوان سعودی عرب کا مستقبل ہے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے کیونکہ خاندان کی طاقت میں اب تک جو ایک نوع کا توازن چلا آ رہا تھا اُس کا کامل جھکاؤ MBS کی طرف ہونے سے دوسری طرف جو احساسِ محرومی پیدا ہوگا اُس کے اپنے مفاسد و مضمرات ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ ابھی 4نومبر کو شاہ سلمان نے اپنے فرمان کے ذریعے MBS کو سپریم انٹی کرپشن کمیٹی کا چیئرمین بنایا تو انہوں نے چند گھنٹوں بعد منی لانڈرنگ، ٹینڈرنگ میں بدعنوانی ، جدہ سیلاب کی خرد برد کرو نا وائرس اور اسلحہ کی غیر قانونی تجارت کے الزامات پر بھاری نوعیت کا کریک ڈاؤن کر دیا جس کے نتیجے میں 11شہزادے 4موجودہ اور 38 سابقہ وزراء کو زیر حراست لیتے ہوئے اُن کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ۔
سعودی علماء کے بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بدعنوانی کا انسداد شریعت کا حکم ہے کرپشن سے لڑنا دہشت گردی سے مقابلے جتنا اہم مذہبی فریضہ ہے اسلام نے اس کا حکم دیا ہے ممتاز سعودی علماء نے اپنے بیان کے اختتام پر یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہدِ سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان کی پاسبانی فرمائے جو سعودی عرب کو بدعنوانی سے پاک کرتے ہوئے اقوام عالم میں اول مقام دلانے کے لیے کوشاں ہیں سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود بن عبداللہ کا کہنا ہے کہ کرپشن کیسز میں گرفتار افراد سے ان کے عہدوں کی وجہ سے کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کیا جائے گا کسی کا عہدہ انصا ف کی راہ میں حائل نہیں ہوگا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو بیرونی چیلنجز کے علاوہ اندرونی طور پر بھی متنوع مسائل دکھائی دے رہے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تیس چالیس سال پہلے کا سعودی عرب نسبتاً معتدل تھا۔1979کا سال مختلف حوالوں سے دنیائے اسلام کے لیے بہت کڑا ثابت ہوا تھا۔ کویت پر صدام کے قبضے اور خطے میں اٹھنے والی شدت پسندی نے سعودی عرب کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ امریکی افواج کو اپنے تحفظ کیلئے عربستان میں رکھے۔ اسی تناظر میں القاعدہ جیسی تحریکوں نے جنم لیا اور سعودی سوسائٹی تا حال مختلف النوع فتنوں کا شکار ہے ۔ عین ممکن ہے 81سالہ شاہ سلمان تختِ شاہی سے دستبردار ہوتے ہوئے کسی بھی وقت جواں سال شہزادہ محمد کو اس ذمہ داری پر فائز کر دیں کیونکہ سعودی سلطنت کو ان سے بے پناہ امیدیں اور مستقبل کی توقعات ہیں۔
اپریل 2016میں انہوں نے جو ویژن 2030 پوری فصاحت کے ساتھ دیا تھا اُسے پوری دنیا میں سراہا گیا کیونکہ وہ تیل کی ختم ہوتی ہوئی معیشت کا متبادل پیش کر رہے ہیں500ارب ڈالر کی لاگت سے شمال مغربی سعودیہ میں بحیرہ احمر کے کنارے ریزورٹ پر اجیکٹ کے تحت وہ 26 ہزار پانچ سو مربعہ کلو میٹر پر محیط جو نیا شہر بسانے جا رہے ہیں وہ اُن کا ایک ایسا چائلڈ برین ہے جسے دیکھ کر اُ ن سے پوچھا گیا کہ کیا یہ دبئی سے بڑھ کر ہو گا انہوں نے کہا نہیں یہ نیویارک سے بڑھ کر ہو گا تین براعظموں کا سنگم یہ ایسا انٹرنیشنل سٹی ہو گا جس پر روایتی سعودی قوانین لاگو نہیں ہو نگے۔ محمد بن سلمان وہ لبرل سعودیہ کے ساتھ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں دسمبر 2015میں انہوں نے خواتین کو میونسپلیٹی کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق دلوایا۔ اب انہی کی کاوشوں سے جون 2018میں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کا حق بھی ملنے جا رہا ہے ۔ MBS کی سوچ یہ ہے کہ اب ہمارے قدامت پسند سماج کو عصری تقاضوں کی مطابقت میں جدید یت کا سفر طے کرنا ہوگا ۔ سعودی عرب میں لباس کے حوالے سے جو سختیاں تھیں وہ اب کم کی جارہی ہیں تہذیب و ثقافت نیز موسیقی و فنونِ لطیف میں بھی سعودی عرب کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے لانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں۔ کرپشن کے نام پر جاری احتساب میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جانے چاہئیں۔ سعودی عرب بوجوہ ہم سب کی محبتوں کا مرکز ہے ہم پاکستانی شہزادہ محمد بن سلمان کی سوچ کو امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ مکے اور مدینے کی سرزمین انسانی حقوق اور انسان نوازی میں بھی لندن اور نیویارک سے آگے تک جائے۔

تازہ ترین