• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر انسان کسی صدمے، نقصان، حادثے، علالت کی وجہ سے پریشان ہو تو قلب وذہن کی اداسی قابل فہم ہوتی ہے ۔لیکن اگر بلاوجہ طبیعت پر اداسی غلبہ حاصل کرلے تو یہ روح کی اداسی ہوتی ہے ۔صدمات کا رنج یا غم قلب وذہن کو متاثر کرتا ہے روح کو نہیں۔روح امر ربی ہے اور کبھی کبھی عالم ارواح میں اپنے مسکن کی یاد میں اداس ہو جاتی ہے تو انسان پر بلاسبب، بغیر کسی وجہ کے اداسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایسا ہر شخص کے ساتھ نہیں ہوتا شاید ان طباع اور طبیعتوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کی روح دنیا کی کثافت سے قدرے محفوظ ہوتی ہے ۔دنیا کی ہوس میں ڈوبے ہوئے حضرات ایسے مواقع پر دل کے بہلانے کا سامان کرتے ہیں جس کے سو رنگ اور سو سے زیادہ انداز ہیں جبکہ خوف خدا کے مارے دلی سکون کے لئے ذکر الٰہی کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ذکر دلوں اور روحوں کو سکون بخشتا ہے ذکر روح کی غذا ہے چنانچہ روح ذکر سے پیاس بجھا کر شاداں ہو جاتی ہے اور اداسی یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے سورج طلوع ہوتے ہی نیلگوں بدلیاں چھٹ جاتی ہیں۔
ہر شخص اپنے اپنے تجربات، اپنی اپنی فکر، میلان اور تربیت کی زبان بولتا اور لکھتا ہے میرے نزدیک انسان کی تحریک سے مصنف کی شخصیت جھانکتی ،نظریات چھلکتے اور نیت یا عزائم بے نقاب ہوتے نظر آتے ہیں کچھ انسان نے پڑھا ہوتا ہے ،کچھ پڑھایاگیا ہوتا ہے ،کچھ زندگی کے اتار چڑھائو میں سیکھا ہوتا ہے لیکن ان کے علاوہ علم کا ایک اہم ترین ماخذ وہ علم ہے جو انسان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتا ہے یہ عطا ہر انسان کا مقدر نہیں کیونکہ قدرت اپنے علم کی بارش وہاں برساتی ہے جہاں دلوں کی کھیتیاں اس سے پیاس بجھانے کے لئے بے تاب ہوں۔ خواہش، خواہش ہی رہتی ہے جب تک اس کے پس پردہ بے پایاں خلوص نہ ہو، انمٹ چاہت نہ ہو اور جب تک اسے دعا، ...دعائے نیم شبی ....کے آنسوئوں سے سینچا نہ جائے۔ جب آرزو، خواہش اور جذبے کو دعا کے آنسوئوں سے سہ آتشہ کیا جاتا ہے تو وہ محبت اور عشق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تب خدائی علم قطرہ قطرہ برستا ، قلب ، باطن اور نگاہ کو منور کرتا چلا جاتا ہے۔دنیاوی علم روزی کمانے ، جاہ وحشمت حاصل کرنے، دولت کے انبار لگانے، دوسروں پر حکمرانی کرنے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے جبکہ اللہ پاک کا عطا کردہ علم قلب کو دنیا اور نفسانی خواہشات سے پاک کرتا،حلم، نرمی، صبر ، حسن اخلاق ، مخلوق سے محبت سکھاتا اور ہمہ وقت اپنے خالق سے ایک مضبوط رشتے میں منسلک رکھتا ہے ۔یوں کہ ایک لمحہ بھی مالک حقیقی کے خیال سے غافل نہیں ہوتا ۔’’جیڑا دم غافل، اوہی دم کافر ‘‘ سبحان اللہ اس کیفیت یا مقام کو پیر کامل حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ نے اپنی زندہ کتاب کشف المحجوب میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
’’اس طرح قلب مومن و مخلص، معرفت و توحید اور محبت کے نور سے عرش الٰہی کو دیکھ لیتا ہے اور دنیا میں عقبیٰ کے حالات سے باخبر ہو جاتا ہے ‘‘ ترجمہ مفتی معین الدین نعیمی مرحوم ۔ص100) یہ مقام اللہ پاک کے عطا کردہ علم کی دین ہوتا ہے اور اس علم کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ انسان کو وسیع ظرف عطا ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کا اظہار نہیں کرتا، حالات عقبیٰ کو عام طور پر مخفی رکھتا ہے جب تک اسے اظہار کا اذن الٰہی یا اجازت نہ ملے۔اس کو ظاہر بھی مخصوص لوگوں پر کیا جاتا ہے ۔
حضرت علی ہجویری کو علم تھا کہ ایک دور ایسا آئے گا جب دنیاوی حوالے سے بظاہر علم کی بلندیوں پرمتمکن حضرات اس علم سے انکار کریں گے چنانچہ وہ اس ضمن میں ایک اعلیٰ ترین سند لائے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ’’حضرت حارث ؓ جب بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے تو ان سے حضور اکرم ﷺ نے دریافت کیا اے حارث کس حال میں تم نے صبح کی ؟ عرض کیا میں نے دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے رب کو پہچانا اس کی علامت یہ ہے کہ اب پتھر، سونا، چاندی، مٹی میرے نزدیک سب برابر ہیں۔ میری کیفیت یہ ہو گئی ہے کہ گویا میں اپنے رب کو عرش پر واضح طور پر دیکھ رہا ہوں...حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ترجمہ اے حارث تم نے ایمان کی حقیقت پالی اب اس پر قائم رہو‘‘ آپﷺ نے اسے تین مرتبہ فرمایا فطری غور کریں تو دنیا سے قطع تعلق کا مطلب ترک دنیا نہیں بلکہ وہ مقام اور منزل ہے جب انسان کے لئے پتھر، سونا، چاندی اور مٹی برابر ہو جائیں ۔صوفی ،فقیر اور مرشد کامل کیا ہے ؟وہ ہستی جس کا دل دنیاوی و نفسانی خواہشات سے بالکل پاک ہو۔ہم پیشہ ور پیروں، گنڈے تعویز کی دکانوں، سونے جواہرات میں کھیلتے موروثی گدی نشینوں، ڈبے پیروں اور شعبدہ بازوں میں مرشد کامل ڈھونڈتے ہیں اور پھر اسے آزمانے گھر سے نکلتے ہیں۔جب نیت میں دنیا کا کوڑا کرکٹ بھرا ہو انسان اپنے دولت ، عہدے، شہرت کی نخوت اور اپنی شخصیت کے زعم میں مبتلا ہو تو مرشد کامل کبھی نہیں پا سکیں گے ۔کیونکہ مرشد اگر سچا فقیر اور اللہ کا بندہ ہو تو اس کی نگاہ قلب پہ ہوتی ہے اور اسے متوجہ کرنے کے لئے سر تا پا عجز، خلوص، لگن اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے ۔فقیر سنت نبویﷺ کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے ،وہ دلوں کی صفائی کرتا، باطن کو روشن کرتا اور نگاہوں سے پردے اٹھاتا ہے نہ کہ نوکریاں اور ترقیاں دیتا، حصول دولت کے طریقے سکھاتا اور لا علاج بیماریوں کا علاج کرتا ہے ۔ابتلا، بیماری اور مصیبت میں وہ دعا کرتا ہے کہ دعا اور علاج سنت ہے لیکن نتیجہ رضائے الٰہی پہ چھوڑ دیتا ہے ۔حضرت حارث ؓ جیسے بے شمار واقعات کشف المحجوب میں درج ہیں لیکن ذرا غور کیجئے کہ جب کوئی انسان زمین پہ بیٹھا عرش اور عقبیٰ دیکھتا ہے تو کیا کچھ دیکھتا ہو گا ؟ہاں وہ اظہار اور افشا پہ قادر نہیں افشا صرف اسی قدر جتنی اجازت ملے کیونکہ علم الٰہی، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی امانت ہے ۔فقیر اس امانت میں خیانت کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔اسی طرح یہ کہنا کہ گویا فقر، روحانیت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے محض خام خیالی بلکہ جہالت ہے کیونکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، دنیا کبھی بھی ’’اللہ والوں‘‘ سے خالی نہیں ہوگی۔اسی لئے حضرت شیخ علی ہجویری فرماتے ہیں کہ مشائخ طریقت دلوں کے طبیب ہوتے ہیں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’ اپنی قوم میں شیخ ایسے ہوتا ہے جیسے کہ اپنی امت میں نبی‘‘ (کشف المحجوب ص 127) حدیث قدسی ہے ’’میرے اولیاء میری رحمت کی چادر میں ہوتے ہیں جنہیں میرے ساتھ میرے اولیاء ہی پہچانتے ہیں‘‘(ص138)
آج طبیعت اداس تھی ایسے مواقع پر میں کبھی کبھار کشف المحجوب اٹھا لیتا ہوں کہ وہ ان چند زندہ کتابوں میں سے ہے جو صدیوں کا طویل عرصہ طے کرنے کے باوجود نہ صرف زندہ و پائندہ ہے بلکہ اس کی روشنی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔میں اس بقا کو منشائے الٰہی سمجھتا ہوں ورنہ اس کتاب کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا ۔کتاب کھولی تو صفحہ نمبر 113پر نظر پڑی لکھا ہے کہ تصوف سے انکار شریعت اسلامیہ سے انکار بن جائے گا ۔یہی نہیں بلکہ یہ حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حمیدہ، فضائل جمیلہ اور اسوہ حسنہ سے انکار کہلائے گا اس کے بغیر دین ریاکاری بن جاتا ہے (ص113) حضرت علی ہجویری مزید فرماتے ہیں کہ منکرین تصوف کو کبھی مشاہدہ حق نہیں ہوگا۔ اللہ اللہ سبحان اللہ

تازہ ترین