• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب پاکستان بنا تو مقامی کمپنیاں بجلی پیدا کرتی تھیں، جو محدود علاقے کو فراہم کی جاتی۔ بجلی کی کل پیداوار بہت کم تھی۔ پورے ملک میں صرف پچاس میگا واٹ۔ آج شاید ہمارے موبائل فونز کو چارج کرنے میں ناکافی ہو۔ کینیڈا کی حکومت نے مدد کی اور پن بجلی کا پہلا بڑا منصوبہ وارسک ڈیم وجود میں آیا۔ 1951ء میں شروع ہونے والے منصوبے کا افتتاح ایوب خان کے ہاتھ سے ہوا۔ ایک سو ساٹھ میگاواٹ اضافی بجلی دستیاب ہوئی۔ ہمارے پاس نیشنل گرڈ نہیں تھا۔ زائد بجلی کی ترسیل کے لئے نیشنل گرڈ کی بنیاد پڑی۔ جب منگلا ڈیم بنا تو ایک ہزار میگاواٹ کا مزید اضافہ ہوا۔ ابھی وزارت پانی و بجلی اور نیپرا وجود میں نہیں آیا تھا۔ بجلی کی قیمت کے تعین میں حکومت واپڈا کی شرح منافع میں اتنی گنجائش رکھتی کہ نئے کارخانے لگائے جا سکیں۔
وارسک، منگلا اور پن بجلی کے دوسرے منصوبوں سے کل پیداوار ڈیڑھ ہزار میگاواٹ سے بھی کم تھی۔ مگر واپڈا کا سالانہ منافع بہت پرکشش تھا۔ اِس رقم سے نہ صرف بجلی کی ترسیل کے نظام کو وسعت دی جاتی تھی بلکہ تھرمل بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانے بھی لگائے جاتے۔
اُن دنوں نیا آئین بنانے کے عمل میں ہر صوبہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا تھا۔ تربیلا ڈیم مکمل ہونے پر تین ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ تھا۔ خیبر پختونخوا کے رہنمائوں نے اندازہ لگایا کہ ڈیڑھ ہزار میگاواٹ سے کم پن بجلی کی پیداوار سے واپڈا اتنا پرکشش منافع کما رہا ہے تو تربیلا مکمل ہونے پر یہ منافع کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اُن کے تحرک پر 1973ء کے آئین میں آرٹیکل(2) 161 شامل کیا گیا۔ اِس کی رُو سے پن بجلی کے منصوبوں سے حاصل ہونے والا خالص منافع اُس صوبے کو منتقل کیا جانا تھا جہاں بجلی گھر واقع ہو۔ یہ ایک غیر معمولی قدم تھا۔ اِس لئے کہ دُنیا کے کسی آئین میں ایسی نظیر نہ تھی۔ اِس آئینی انتظام کے تحت وسائل کی منتقلی کا اخلاقی جواز بھی موجود نہ تھا کیونکہ بجلی پیدا کرنے کے عمل میں پانی کم نہیں ہوتا۔ پورے ملک کے صارفین پر اضافی بوجھ ڈال کر صرف اُس صوبہ کا مالی فائدہ، جہاں بجلی گھر واقع ہو، بظاہر غیرمعقول اور بلاجواز نظر آتا تھا۔ پن بجلی کے منصوبوں میں اگر پانی کو ذخیرہ کرنا شامل ہو تو ایک بہت بڑے خطے میں لوگوں کے مکان، کھیت، کاروبار سب کچھ زیرِ آب آ جاتے ہیں۔ اخلاقی طور پر کسی فائدے پر اُن کا حق فائق ہے، مگر آئینی شق میں متاثرین کا ذکر تک نہ تھا۔
خیبر پختونخوا کے سیاست دانوں نے یہ آرٹیکل آئین میں شامل کروایا تاکہ صوبہ کے مالی وسائل میں اضافہ ہو سکے مگر بھٹو صاحب بھی بہت کائیاں قانون دان تھے۔ اُنہوں نے خالص منافع کا تعین کرنے کے لئے’’وضاحت‘‘ آئین کی متعلقہ شق کا حصہ بنا دی۔ اُس ’’وضاحت‘‘ کے تحت پن بجلی کے خالص منافع کے شمار میں بہت سے اخراجات منہا کئے جانے تھے۔ اِن اخراجات میں منصوبے پر اُٹھنے والی لاگت کی واپسی، محفوظ سرمائے کا انتظام، مشینری اور اثاثوں کی قیمت میں وقت کے ساتھ کمی، سب رقوم شامل تھیں۔ آئین منظور ہونے کے چند سال بعد جب تربیلا سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی تو خالص منافع شمار کرنے کے طریقہ کار پر اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ کیونکہ اگر آئین میں دی گئی ’’وضاحت‘‘ کے تحت واپڈا کے حساب کو تسلیم کیا جاتا تو خالص منافع بہت کم بچتا جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی قیادت بہت زیادہ توقعات رکھتی تھی۔ یہ معاملہ مختلف اوقات میں کئی کمیٹیوں اور اداروں کے پاس گیا، مگر خالص منافع شمار کرنے کا مشترکہ فارمولا حتمی طور پر طے نہ ہو سکا۔
اِس آرٹیکل سے پن بجلی کے دوسرے منصوبے بھی متاثر ہوئے۔ کالا باغ ڈیم منصوبے میں پانی کے ذخیرے کا کچھ حصہ صرف پنجاب، کچھ حصہ صوبہ خیبر پختونخوا اور باقی دونوں صوبوں کی مشترکہ سرحد پر واقع تھا۔ متاثرین کی زیادہ تعداد صوبہ خیبر پختونخوا میں بستی تھی مگر بجلی گھر پنجاب میں واقع تھا۔ آئین کے آرٹیکل 161(2)کے تحت پن بجلی سے خالص منافع پر صرف پنجاب کا حق ہوتااور صوبہ خیبر پختونخوا خالی ہاتھ رہ جاتا۔ دوسری وجوہات کے علاوہ منصوبے کی مخالفت میں یہ اَن کہی وجہ بھی شامل تھی۔
آرٹیکل 161(2)کا اطلاق پاکستان کے سب علاقوں پر یکساں ہونا چاہئے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پن بجلی کے منصوبوں سے یا تو خالص منافع کی ادائیگی نہیں ہوئی اور اگر ہوئی تو ہر منصوبے کے لئے مختلف طریقے سے۔ غازی بروتھا منصوبے میں بھی بجلی گھر صوبہ پنجاب میں واقع تھا۔ دوسرے صوبوں سے اِس منصوبے کی منظوری لینے کے لئے حکومت پنجاب نے اُس وقت رضاکارانہ طور پر پن بجلی کے منافع سے دست برداری کا اعلان کر دیا جسے اب واپس لیا گیا ہے۔
آئین کے متعلقہ آرٹیکل میں صرف صوبوں کا ذکر ہے۔ وارسک ڈیم کا بجلی گھر خیبر ایجنسی میں اور منگلا ڈیم کا بجلی گھر آزاد کشمیر کی جغرافیائی حدود میں ہے۔ صوبائی حدود میں نہ ہونے سے اِن خطوں کو پن بجلی کے منصوبوں سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے کوئی تحرک نہ کیا، مگر آزاد کشمیر کی حکومت نے اپنے حق کے لئے آواز اُٹھائی۔ اُس کے لئے (Water use charges) ’’پانی کے استعمال‘‘ کی ایک نئی مد، نیپرا سے منظور کروائی گئی۔ صارفین سے یہ رقم وصول کر کے آزاد کشمیر کی حکومت کو دی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت کا مطالبہ ہے کہ اُسے صوبہ خیبر پختونخوا کو ادا کی جانے والی شرح کے مطابق ادائیگی کی جائے۔
ایک اور مسئلہ دیامیر بھاشا ڈیم کے حوالے سے پیدا ہوا۔ اِس ڈیم میں زیر آب آنے والا تقریباً سارا علاقہ گلگت بلتستان میں واقع ہے، مگر بجلی گھر کی مجوزہ جگہ کے ایک طرف صوبہ خیبر پختونخوا اور دوسری طرف گلگت کا ضلع دیامیر تھا۔ اس مسئلے کا بھی ایک نیا حل نکالا گیا۔ بجلی گھر کے دو حصے ہوئے، ایک دریا کے دائیں اور دوسرا بائیں طرف۔ ایک خیبر پختونخوا اور دوسرا گلگت بلتستان میں۔ خیبر پختونخوا کو صوبہ ہونے کی وجہ سے آئینی تحفظ حاصل ہے مگر گلگت بلتستان کے بارے میں ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔
بطور چیئرمین واپڈا بارہا یہ کوشش کی کہ اِن مسائل کا دیرپا اور مستقل حل ڈھونڈا جائے۔ آزاد کشمیر، خیبر ایجنسی اور گلگت بلتستان کے لوگ بھی پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل ہیں۔ حکومت صوبوں کے لئے جو بھی شرح منافع طے کرے اُس کا یکساں اطلاق تمام خطوں کے لئے کیا جائے۔
نیلم جہلم منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ آئندہ سال کے اوائل میں پن بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت سے خالص منافع کے معاملات طے نہیں ہوئے۔ خدشہ تھا کہ صورتِ حال خراب ہو جائے گی مگر اخباری خبر کے مطابق، چیئرمین واپڈا نے وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سے ملاقات کر کے ایک ناخوشگوار صورتِ حال کو سنبھال لیا۔ مگریہ مسئلہ حکومت کو حل کرنا ہو گا واپڈا اِسے طے نہیں کر سکتا۔ میری رائے میں پاکستان کے سب خطوں کو ایک ہی شرح سے خالص منافع کی ادائیگی ہونی چاہئے، چاہے بجلی سرکاری ادارہ پیدا کرے یا پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنی۔ حق اور انصاف کی بنیاد پر کئے ہوئے فیصلے ملک میں قومی وحدت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھتے ہیں۔ اہم فیصلوں میں تاخیر سے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔

تازہ ترین