• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ نے معذول وزیراعظم نوازشریف کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی ہے۔ احتساب عدالت نے بھی ان کی تین ریفرنسوں کو یکجا کرنے کی پٹیشن مسترد کر دی ہے۔ چند روز قبل صرف اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کہ تینوں ریفرنسوں کو ایک کیس بنا دیا جائے اس حد تک منظور کی تھی کہ احتساب عدالت کو ان کی اس بارے میں پٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے دلائل دینے چاہئے۔ پانامہ کیس کے بارے میں عمران خان اور کچھ دوسرے حضرات کی درخواستیں جوکہ نوازشریف کے خلاف تھیں کو عدالت عظمیٰ نے منظور کر لیا تھا اور انہیں بطور وزیراعظم اور ممبر قومی اسمبلی نااہل قرار دے دیا تھا۔ سابق وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اتنے ’’مضبوط‘‘ ریفرنس بنائے گئے ہیں کہ انہیں ریلیف نہیں مل رہا اور نہ ہی انہیں اس کی کوئی امید ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے نظرثانی درخواست کے مسترد ہونے کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان ججوں سے انصاف کی امید نہیں ہے اور ان کے فیصلے میں واضح بغض نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل میں سے کوئی ایک بھی نہیں مانا اور نہ صرف اپنا سابقہ فیصلہ برقرار رکھا بلکہ اس میں کچھ ایسے ریمارکس بھی دے دیے جن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی ۔ مثلاً یہ کہنا کہ کئی ریاستی ادارے بشمول ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک، نیب اور ایف آئی اے میں نوازشریف نے اپنی من پسند کے افسران لگائے اور یہ ادارے ڈس فنکشنل ہو چکے تھے مناسب نہیں تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ بڑی مستعدی سے کام کر رہی ہے مگر اس کے پاس بھی20 ہزار سے زائد کیسز زیر التواء ہیں جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ ڈس فنکشنل ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہائی کورٹوں کے پاس بھی لاتعداد مقدمات فیصلہ طلب ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں یہ اختیار وزیراعظم کے پاس ہی ہوتا ہے کہ اس نے کون سے افسران کو کس ادارے میں لگانا ہے تاکہ ان کے ایجنڈے پر عملدرآمد ہوسکے۔ حکومت چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو یہ کام وزیراعظم ہی کرتے ہیں۔ ہاں البتہ اعلیٰ عدلیہ کو اختیار ہے کہ وہ ان تقرریوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور جہاں مناسب سمجھے متعلقہ افسران کو ہٹانے کا حکم دے دے جیسا کہ ہماری عدالتیں کرتی رہتی ہیں۔ مزید یہ کہ فیصلے میں نوازشریف کے خلاف ایک شعر کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے نون لیگ کو کافی سخت ردعمل دینے پر مجبور کیا اور اس نے کہا کہ سوال رہبری کا نہیں منصفی کا ہے، بچہ بچہ جانتا ہے قافلے کیوں لٹے، کن رہزنوں نے لوٹے، رہزنوں کی بیعت کی، وفاداری کے حلف اٹھائے، رہزنی کو جواز دینے کیلئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا، رہبر تو پیشیاں بھگت رہے ہیں بتایا جائے رہزن کہاں ہیں۔ اس طرح کے ری ایکشن نے پاکستان کی تاریک تاریخ پر بھرپور تبصرہ کیا۔ یعنی جسٹس منیر نے انصاف کا قتل کیا ،عدالت عظمیٰ نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لائوں کو جائز قرار دیا، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی اور ججوں نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کے جاری کردہ پی سی اوز پر حلف اٹھایا۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کا تینوں ریفرنسوں کو یکجا نہ کرنے کا فیصلہ قانونی طور پر غلط ہے اور اگر ان کو ایک ریفرنس بنا دیا جاتا تو معاملے میں تاخیر سے بچا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ججز دبائو میں ہیں، انہوں نے نظر ثانی کی درخواست پر فیصلے میں اختیارات سے تجاوز کیا اور انہیں گارڈ فادر جیسے جملے نہیں کہنے چاہئے تھے۔
28 جولائی کے سپریم کورٹ کے پانامہ کیس میں فیصلے کے بعد اس بینچ کے ججوں اور میاں نوازشریف کے درمیان کافی ٹکرائو جاری ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ اس بات پر بضد رہا جائے کہ مانیٹرنگ جج نے اپنا کام جاری ہی رکھنا ہے جبکہ ملزمان بار بار اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ نیب کے درجنوں ریفرنس مختلف احتساب عدالتوں اور ہائی کورٹوں میں چل رہے ہیں مگر ان پر نہ تو کوئی سپروائزری جج لگایا گیا ہے اور نہ ہی نیب کو کوئی جلدی ہے کہ ان کے فیصلے جلد ہوں۔ چونکہ صرف ایک شخص کے خلاف ہی ایسا ہو رہا ہے لہٰذا سوال تو جنم لیتے ہیں کہ اس پراسس کا مقصد کیا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ کسی بھی ماتحت عدالت کی کیا مجال ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج کے ہوتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ عدالت عظمیٰ کے ایک جج صاحب کو ٹرائل کورٹ اور نیب میں ہونے والی کارروائی کو سپروائز کرنے کیلئے لگایا گیا ہو۔ سپریم کورٹ کیلئے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ نظرثانی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے مانیٹرنگ جج کے بارے میں اپنی رائے کو بدل دیتی تاکہ نوازشریف اور ان کے فیملی کے دوسرے ممبرز کے اس بارے میں تحفظات ختم ہو جاتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے بلکہ وہ تو بار بار کہہ بھی چکے ہیں کہ انہیں سب کچھ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیوں اور کیسے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ وہ ہر قسم کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہیں۔ احتساب عدالت کی رفتار سے کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نوازشریف ، ان کی بیٹی مریم اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ان تینوں ریفرنسوں میں فیصلے اگلے سال کے پہلے ایک دو مہینوں میں آ جائیں گے۔ سابق وزیراعظم جیل جانے کو تیار ہیں اور اس سے قبل وہ عمرہ بھی کر آئے ہیں اور اپنی والدہ کے ساتھ کچھ دن سعودی عرب میں بھی گزار آئے ہیں۔ ایک بات جو نوازشریف کے خلاف سارا کھیل رچانے والے نہیں سمجھ رہے وہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم جیل میں ہوتے ہوئے ان کے خلاف زیادہ موثر ہوں گے اور ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوگا بالکل اسی طرح ہی جس طرح وزیراعظم ہوتے ہوئے ان پر بہت سی پابندیاں تھیں اور وہ باتیں کھل کر نہیں کرتے تھے جو اس عہدے سے نکالے جانے کے بعد کر رہے ہیں اور بالکل اسی طرح ہی جیسے وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے وہ زیادہ پاپولر ہوگئے ہیں۔ ان کی جماعت متحد ہے اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کی جائیں گی اور کچھ فصلی بٹیرے بھاگ بھی جائیں گے مگر پھر بھی نون لیگ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہی رہے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اپنی پرائیویٹ محفلوں میں یہ کہتے رہتے ہیں کہ اگر نون لیگ متحد رہی تو اگلا الیکشن یہ پھر جیتے جائے گی ۔ یہ اپنے مربیوں کو بار بار کہہ رہی ہے کہ اس جماعت کو توڑا جائے۔ نون لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کو معلوم ہے کہ اگر انہوں نے اس جماعت کو خیرباد کہا تو ان کیلئے آئندہ الیکشن میں جیتنا مشکل ہوگا۔ جہاں تک ’’انقلابی‘‘ جماعت یعنی پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو اسے اس سارے کھیل میں تو کم از کم پنجاب میں کچھ ملتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس کی آج بھی اس صوبے میں وہی حالت ہے جو کہ 2013ء کے انتخابات میں تھی۔ تاہم پی پی پی مختلف قول وفعل سے اپنی مسلمہ جمہوری روایات کو کافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال آصف زرداری کا یہ کہنا ہے کہ نوازشریف سے تعاون ملک دشمنی ہوگا ہے اور اس کا آخری لمحے حلقہ بندیوں کے بارے میں آئینی بل کی منظوری سے پیچھے ہٹنا تاکہ آئندہ عام انتخابات کے مقررہ وقت پر ہونے کے بارے میں مشکلات پیدا ہو جائیں۔

تازہ ترین