• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا رضاجملہ ضائع نہیں ہونے دیتیں۔ اسمبلی کے اندر اور باہر ان کے جملے خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ زمانہ ٔ طالبعلمی سے سیاست کرنے والی شہلا رضا سے صرف اتنا پوچھا کہ جب ایم کیو ایم اپنا سب کچھ بدل چکی ہے، کبھی ایم کیو ایم پاکستان نام رکھ لیتی ہے کبھی پی ایس پی سے اتحاد کر لیتی ہے تو ایسے میں الیکشن کمیشن ایکشن میں کیوں نہیں آتا، کیوں ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اگر یہ کام پیپلز پارٹی یا پھر تحریک انصاف کے لوگ کرتے تو الیکشن کمیشن ابھی تک بہت کچھ کر چکا ہوتا، یہ خاموشی کیوں ہے؟ اس لمبے چوڑے سوال کے جواب میں شہلا رضا کہنے لگیں ’’ہمارا کام توجہ دلوانا ہے، اداروں کو انجکشن لگانا نہیں‘‘ سندھ اسمبلی کے حالیہ چند سالوں کے واقعات لکھوں تو کالم کم پڑ جائے گا بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام واقعات میں خوشگواری کا رنگ شہلا رضا نے بھرا۔ لیکن اس دوران خوبصورت بات یہ رہی کہ اداروں کا احترام برقرار رہا۔ اگر ہم اسی بات کو قومی اسمبلی میں لے آئیں جہاں ن لیگ کی اکثریت ہے تو وہاں یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ قومی اسمبلی میں اداروں پر اس قدر تنقید کی گئی کہ آئین کے دیئے گئے اسباق بھلا دیئے گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید کا یہ منظر پہلے نہیں دیکھا گیا، بھٹو کو پھانسی ہوگئی مگر وہ آخری وقت تک ججز کو مائی لارڈ کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدکے علاوہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما عدالتوں میں پیش ہوتے رہے مگر نہ تو لشکر کشی ہوئی نہ عدلیہ کے بارے میں ایسی سخت گیری اختیار کی گئی کہ لوگ اسے ناپسندیدگی سے دیکھیں، نہ ہی کبھی’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان ہوئی حالانکہ محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی حکومت کو دو مرتبہ برطرف کیا گیا، ان کے لئے سیاسی میدان میں ناہمواریاں پیدا کی گئیں، یہ ناہمواریاں نوازشریف نے انہی لوگوں کے ساتھ مل کر پیدا کیں جنہیں وہ آج کل ’’رہزن‘‘ کہہ رہے ہیں، ایسی دوعملی اور دو رخی لیڈروں کو زیب نہیں دیتی، فوج کی چھتری سے پہلےنوازشریف نے ایک مرتبہ الیکشن لڑا تھا، پتہ نہیں جنرل جیلانی نے سیاسی پودے کی کتنی ’’گوڈی‘‘ کی، اسے کتنی کھاد دی، اسے کتنا پانی دیا کہ آج وہ اپنے محسنوں کو ’’رہزن‘‘ کہہ رہا ہے۔ اگر میاں صاحب کی بات مان بھی لی جائے تو کیا یہ سچ نہیں کہ وہ ’’رہزنوں‘‘ کے ساتھی تھے، کیا یہ درست نہیں کہ وہ ایک ’’رہزن‘‘ کا مشن جاری رکھنے کی باتیں کرتے رہے، کیا یہ درست نہیں کہ انہوں نے ایک خاص ادارے سے الیکشن میں پیسے لئے تھے، کیا یہ درست نہیں کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے ایک بڑے دہشت گرد سے دولت حاصل کی تھی، کیا یہ درست نہیں کہ وہ خود ہی نگران وزیراعلیٰ بن کر الیکشن کروایا کرتے تھے، کیا یہ درست نہیں کہ جنہیں وہ ’’رہزن‘‘ کہتے ہیں، انہی ’’رہزنوں‘‘ کے طفیل انہوں نے اقتدار کی ساری سیڑھیاں طے کیں۔ میاں نوازشریف کا سارا سیاسی سفر گواہ ہے کہ انہیں ہر لمحہ’’رہزنوں‘‘ کی ہمددریاں حاصل رہیں، کیا یہ درست نہیں کہ وہ اور ان کے بھائی ٹیلی فون پر ججوں کو فیصلوں کی ہدایات دیتے رہے، اور کیا یہ سچ نہیں کہ نومبر 1997ء میں ان کی جماعت اپنے اراکین اسمبلی سمیت سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئی تھی، کیا یہ تھا قانون کا احترام، کیا یہ تھا آئین کا تقدس اور کیا قانون بنانے والے یوں کرتے ہیں، کیا نوازشریف نے اس پر قوم اور عدلیہ سے معافی مانگی تھی، کیا یہ عہد کیا گیا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو میاں نوازشریف کی حالیہ گفتگو کو سوالیہ بناتی جارہی ہیں۔
خواتین و حضرات! صرف تین روز پہلے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسترد شدہ نظرثانی کی اپیل کے بارے میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے نے بہت کچھ واضح کردیا، وہ جو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان تھی اس کا جواب بھی آگیا، مریم نواز کو بھی جواب مل گیا اورجھوٹ بے نقاب بھی کردیا گیا۔ تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد میاں نوازشریف نے اسے ججوں کا بغض قرار دیا، انہوں نے ججوں پر بہت تنقید کی، ان کی گفتگو سن کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص ملک کا تین بار وزیراعظم رہا، یہ شخص سب سے بڑے صوبے کا دو بار وزیراعلیٰ رہا، یہ شخص ضیاء الحق دور میں پنجاب کا وزیر خزانہ بنا۔ اتنی طویل سیاست بھی انہیں گفتگو کا ڈھنگ نہیں سکھا سکی، اپنے ملکی اداروں کے بارے میں ایسی گفتگو تو کسی کو زیب نہیں دیتی۔ اسی لئے ان کی بے انتہا مدد کرنے والے آصف علی زرداری بھی بول پڑے ہیں کہ ’’عدلیہ پر حملہ، نوازشریف کا جمہوریت دشمن ایجنڈا ہے، نوازشریف عالمی طاقتوں کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں، ان سے تعاون کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہے‘‘ عمران خان کہتے ہیں کہ ’’نوازشریف نے پارلیمنٹ، عوام اور عدالت کے روبرو جھوٹ بولا‘‘\
میاں نوازشریف نے ججوں کے بارے میں انتہائی توہین آمیز لہجہ اختیار کر رکھا ہے، انہوں نے ججوں کو غصیلہ اور بغض کا حامل قرا ردیا، پھر ایک سرکاری عمارت ’’پنجاب ہائوس‘‘ میں ن لیگ کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا گیا، اس قرارداد میں واضح نظر آرہا ہے کہ پاکستانی فوج پر کھلی تنقید کی گئی، ماضی کے کئی جرنیلوں کو ’’رہزن‘‘ قرار دیا گیا۔ اگر اس پورے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ میاں نوازشریف اداروں کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں، اس لڑائی کے دو مقاصد ہیں، ان کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں ان کی کرپشن پس پردہ چلی جائے، دوسرا مقصد یہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہو جائیں تاکہ ان کے مخالف عمران خان اپنی موجودہ سیاسی قوت سے فائدہ نہ اٹھا سکیں کیونکہ عمران خان کے حالیہ سیاسی جلسے ان کی مقبولیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف شاید الیکشن ملتوی کروانے میں تو کامیاب ہو جائیں مگر دوسرے مقصد میں کامیابی نظر نہیں آرہی، پتا نہیں کون، کب وعدہ معاف گواہ بن جائے۔ میاں نوازشریف کی حالیہ گفتگو پر پوری قوم حیران بھی ہے اور پریشان بھی، پتہ نہیں کس وقت کون توہین عدالت میں اندر ہو جائے۔ ایسی توہین آمیزی پر غالب کا مصرع یاد آرہا ہے کہ؎
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

تازہ ترین