• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے معروف مفکر، ماہر تعلیم اور اکیڈمی آف لیٹرزکے ایوارڈ یافتہ سینئر دانشور محمد ابراہیم جویو 102سال کی عمر میں علالت کے باعث جمعرات کو انتقال کرگئے۔ ان کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے شہر کے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے، مرحوم کے پسماندگان میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ ضلع دادو کے تعلقہ کوٹری کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’آباد‘‘ میں انتہائی غریب گھرانے میں 13اگست 1915ء میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم اسی چھوٹے سے گائوں میں حاصل کی، پھر ضلع دادو کے چھوٹے سے شہر ’’سن‘‘ کے ایک اسکول میں داخل ہوئے جہاں انہیں سندھ کے ایک معروف سیاستدان، مورخ اور دانشور کی جانب سے اسکالر شپ ملتی رہی، 1934ء میں ممبئی یونیورسٹی کے تحت امتیازی نمبروں سے میٹرک پاس کیا اور پورے ضلع میں اول پوزیشن حاصل کی جس کے اعتراف میں یونیورسٹی کی طرف سے20روپے ماہانہ اسکالر شپ بھی دی گئی۔ محمد ابراہیم جویو نے ادب کے علاوہ ترقی پسند اور قوم پرست تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ عالمی صورتحال، سوشلزم، مذہب، سیاست اور تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ باخبر رہتے تھے۔ انہوں نے سندھی ادبی بورڈ میں سیکرٹری اور چیئرمین کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں اور سندھی ادب کو نئی جہت بخشی۔ سندھ کی ثقافت اور تمدن کے تحفظ کے لئے ہمیشہ متحرک رہے۔ 100سال کی عمر میں کمزوری محسوس کرنے کے باوجود بھی ادب تاریخ فلسفہ، مذہب اور انسانی حقوق پر لکھنے اور پڑھنے میں مصروف رہے ۔انہوں نے فرانسیسی انقلاب، ترقی پسند ادب، تاریخ، فلسفہ، سیاست انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر تقریباً پچاس کتابیں لکھیں اور ترجمہ کیں، مقالات کی تعداد 100ہے۔سندھ کی ثقافت و تمدن اور روشن خیال ادب کے لئے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائیگا۔ انہی خدمات کی بنا پر ان کو ایک صدی کی آواز کہا گیا ہے۔ان کے جانے سے شعبہ ادب میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے اگر ہماری نوجوان نسل ان کی تصانیف کا مطالعہ کرے اور ان کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلوئوں سے مستفید ہوتو اس خلا کو کسی نہ کسی حد تک پُر کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین