• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ایک شعر کا شہرہ ہے جس کاپس منظر یہ ہے کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمہ میں اس کے معنی ومفہوم کومتن کا حصہ بنایاگیاہے۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوںسے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
قانونی ماہرین نے کہاہے کہ سیاسی رہبروں کو گاڈفادر،سسلین مافیا کا طعنہ دیتے ہوئے ان کی رہبری کا سوال اٹھانے سے غیر جانبداری کا دعویٰ کمزور پڑجاتاہے۔ ان کاکہناہے کہ انصاف اور عدل کی اپنی ز بان ہوتی ہے جو طعنہ ،تشنیع اور سرزنش سے ماورا ہوتی ہے۔ قانون کی تشریح براہ راست آئین کے مطابق ہوتی ہے جس کا آہنگ سنجیدہ اور متین ہوتا ہے ۔دوسری جانب یہ بھی کہاجارہاہے کہ پہلی باراس نظام کے لاڈلوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیاگیاہے۔شریف خاندان کے اقتدار کا آغاز 37سال قبل جنرل محمد ضیاالحق کے دورمیں ہوا تھا۔جنرل حمید گل جیسے کرم فرما اپنے ’’نشان ِفخر‘‘ پر تفاخرانہ احسا س رکھتے تھے مگر پھر چشم زمانہ نے یہ بھی دیکھاکہ میاں نوازشریف کو پہلی مرتبہ صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑتے ہوئے ،دوسری مرتبہ مشرفی مارشل لا سے اور تیسری مرتبہ عدالتی فیصلے سے اقتدار سے ہٹایا گیا۔میاں نوازشریف اور نون لیگ کاکہنا ہے کہ انکے ساتھ انصاف نہیں ہوا ان سے انتقام لیاگیا۔ ان کے لواحقین اور سیاسی حواری یہ کہہ رہے ہیں کہ بھٹو کے خلاف کیاگیاپھانسی کا فیصلہ دراصل ان کا عدالتی قتل تھا۔وہ آج حسین شہید سہر وردی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا نوحہ کرتے ہوئے یہ قرار دے رہے ہیں کہ نظریہ ضرورت نے اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اگر یہ روایت برقرار رہی توسنگین نتائج برآمد ہوں گے۔انہوں نے فیصلے میں درج کئے گئے شعر کے مصرعہ ثانی میں ’’رہبری ‘‘ کی جگہ ’’منصفی‘‘ درج کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار یوں کیاہے کہ
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری ’’منصفی‘‘ کا سوال ہے
گوگل کے مطابق مذکورہ شعر بھارتی شاعر فراق جلال پوری سے منسوب ہے۔پاکستان سے قبل بھارتی سیاستدانوں نے سیاسی بحث وتکرار کرتے ہوئے اسے استعمال کیاہے۔چند سال قبل سشما سوراج نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پر تنقید کرتے ہوئے یہ شعر پڑھاتھا جس کے جواب میںبھارتی وزیر اعظم نے علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر پڑھا تو وہ شعری طور پر لاجواب ہوگئیں۔
ماناکہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تومیرا شوق دیکھ،میرا انتظار دیکھ
دلچسپ امر ہے کہ فراق جلال پوری کے درج بالا شعر ’’مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں‘‘ کا حوالہ اپنے خطبات میں پاکستان کے نامور سپوت اور عالم اسلام کے مقبول مبلغ مولانا طارق جمیل بھی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر میں نے ایسے کئی ایک وڈیو کلپس سنے ہیں جس میں مولانا اپنی بات کو پُر تاثیر بناتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔مولانا طارق جمیل سے میری نیاز مندی ہے ۔ایک مرتبہ تھیٹر کے معروف اداکار جواد وسیم مجھے اپنے ہمراہ فیصل آباد مولانا کے ہاں لے گئے۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ سینکڑوں جواں سال اسٹوڈنٹس مولانا طارق کی ایک جھلک دیکھنے اور سیلفی بنوانے کی لئے ان کے گھر کے باہر اکٹھے تھے ۔ ہم مولانا کے ساتھ ان کے گھر سے باہر نکلے تو ان کا گاڑی میں بیٹھنا محال ہوگیاہر کوئی ان کے ساتھ سیلفی بنوانے کا خواہشمند تھا ۔سیکورٹی گارڈز کی مدد سے ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو میں مولانا سے مخاطب ہوا جو اپنی گاڑی خود ڈرائیو کررہے تھے۔میں نے کہاایسا ہی منظر آج سے پہلے میں نے ممبئی جوہو کے مقام پر دیکھا تھا۔مولانا نے گاڑی کے شیشے میں سے مجھے استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا تو میں نے عرض کیاکہ ۔۔مولانا جوہو میں بگ بی امیتابھ بچن کے بنگلے (جلسہ )کے باہر بھی ہر روز سینکڑوں پرستار ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھڑے رہتے ہیں ۔مولانا طارق جمیل نے یہ سنا تو مسکراتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے اداکار جواد وسیم سے کہا ۔۔مولانا !سن رہے ہومجھ جیسے فقیر کے گھر کے باہر بھی بالی وڈ کے میگا اسٹاربگ بی جیسا تانتا بندھا ہواہے۔اس پر جواد وسیم نے جھینپے بغیر کہاکہ مولانا ! آپ بھی اپنے کام کے میگااسٹار ہیں۔یہ سنتے ہوئے مولانا سمیت گاڑی میں سوار تمام احباب مسکرانے لگے۔ جنید جمشید مرحوم بھی خطبات میں فراق جلال پوری کا مذکورہ شعر پڑھا کرتے تھے۔وہ مولانا طارق جمیل سے متاثر تھے اسلئے یہ شعر ان کے لبوں پر بھی رہا۔ رہبر اور رہبری کے کردار اور اس سے منسوب توقعات سے متعلق شکیب جلالی کا شعر بھی معنی خیز ہے
ضرور دھوکے میں منزل سے دور آپہنچے
جھجک رہا ہے بہت راہبر بتانے میں
رہبر اور رہبری کے کردار کے حوالے سے آصف زرداری نے بھی سوال اٹھایاہے۔ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف اپنی کرپشن چھپانے کی دھن میں ملکی سلامتی دائو پر لگارہے ہیں۔ ماضی میں ایسے ہی الزامات نوازشریف ،آصف زرداری پرعائد کیاکرتے تھے۔شاید یہ ہماری سیاست کا فیشن ہے۔ عمران خان تو پہلے سے یہ الزامات دہراتے رہتے ہیں۔انہوں نے قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیاہے۔کپتان کا کہنا ہے نوازشریف پر کرپشن ثابت ہوچکی ،عدالت نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ لہذا اب اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی سیاست میں’’فرینڈلی میچ‘‘ ختم ہوچکا ۔پیپلز پارٹی اب کچھ عرصہ سے نون لیگ کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ قبل از وقت انتخابات کے حق میں نہیں۔نوازشریف اور زرداری میں ملاقات کرانے کا ’’مشن خواجگی ‘‘ ناکام ہوچکا ۔اس بابت خواجہ آصف نے خود بتایاکہ زرداری صاحب نے ٹیلی فون کال سنی اور نہ ہی SMSکا رسپانس دیا۔میاں نوازشریف اور مریم نواز نے آصف زرداری کے لئے براہ راست کبھی سخت لہجہ اختیار نہیں کیالیکن خادم اعلیٰ سلطان راہی کے اسٹائل میں للکارتے رہتے ہیں۔اس بار آصف زرداری نے بھی کہاہے کہ ۔۔بڑا بھائی ملاقات کرنا چاہتا ہے اور چھوٹابھائی الزام لگارہاہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان جس ٹکسال سے گھڑے جاتے رہے ہیں اسی ’’ٹکسالی گیٹ‘‘ سے خبر ہے کہ پانامہ اور اقامہ کے بعد حدیبیہ کیس بھی کھلے گا جس کا سامنا میاں شہبازشریف کو کرنا ہوگا۔حدیبیہ کے بعد سانحہ ماڈل ٹائون میں پیش رفت ہونے کا عندیہ بھی دیاجارہاہے۔یہ سب اگلے پندرہ روز میں ہوگا۔ادھر کراچی میں ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی کا انتخابی اتحاد یا انضمام ہونے کے اگلے روز ہی نکاح کے بعد طلاق بھی ہوگئی ،رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کے فیصلے پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پریس کانفرنس بھی کردی۔ اس کے فوری بعد فاروق ستار نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے نہ صرف ایم کیوایم چھوڑی بلکہ سیاست ہی چھوڑدی ۔ لیکن شکر ہے تین گھنٹے بعد والدہ کے کہنے پر استعفیٰ واپس لے لیا۔فاروق بھائی نے ایم کیوایم چھوڑتے ہوئے پینٹ کے ساتھ کوٹ پہن رکھاتھااستعفیٰ واپس لیاتو شلوار قمیض زیب تن کررکھی تھی۔بھلاہو ان کیمرہ مینوں اور رپورٹروں کا جو فاروق بھائی کے گھر سے واپس نہ آئے اور ہم پارٹی میں ان کی واپسی کا منظر بھی دیکھ سکے وگرنہ میئر وسیم اختر نے تونیوز چینلز کے مائیک زبردستی سمیٹتے ہوئے’’بلیک آئوٹ ‘‘ کردیا تھا۔ ایم کیوایم کی رہبری فاروق بھائی ہی کرتے رہیں گے ۔اس ضمن میںبطور رہبر عشرت العباد اور جنرل ریٹائرڈ مشرف بھی چوائسز کے طور پر دستیاب ہیں ۔

تازہ ترین