• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیر بن ، زبر نہ بن، متاں پیش پوی بسلسلہ میں تے منوبھائی

صحافت کے آغازِ سفر میں نثار ناسک نے پوچھا کہ ’’میں اگر کالم لکھوں تو کس نام سے لکھوں ؟‘‘ میں نے کہا ’’ذوالنون‘‘ کے نام سے ۔اس نے ذوالنو ن پسند کیا ۔ صحافت کے نشیب و فراز میں سفر کرتے ہوئے مجھے ایک اور ذوالنون کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا، یہ ناصر نقوی ہیں جو لاہور پریس کلب بنانے اور تعمیر کرنے کے ذمہ دار ہیں، مگر جس طرح پاکستان بنانے والے قائد اعظم کو زیادہ عرصہ پاکستان میں رہنا نصیب نہیں ہوا، اسی طرح ناصر نقوی پر لاہور پریس کلب کے دروازے بند ہیں۔میں اگر حر ہوں تو یزید کے لشکر میں ہوںمیرے حسین ابھی کربلا نہیں پہنچےمگر ناصر نقوی غلام فرید کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ اصول ہے ’’زیر بن، زبر نہ بن، متاں پیش پوی ‘‘۔ناصر نقوی میرے بہت پیارے دوست ہیں اور ہمسفری کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کسی پولیٹیکل پارٹی سے تعلق نہیں ہے مگر لاہور میں بھٹو صاحب پر ہونے والا قاتلانہ حملہ دراصل ناصر نقوی پر ہوا تھا، مگر خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ ناصر نقوی جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والے لاہور پریس کلب کے بانی صدر ہیں۔ لاہور پریس کلب کو میں نے بطور صدر انجمن صحافیاں پنجاب کی حیثیت سے یونین سے الگ کیا تھا۔میرا موقف تھا کہ ٹریڈ یونین سیاست میں ملوث ہوتی ہے جبکہ پریس کلب ایک غیر سیاسی ادارہ ہوتا ہے۔ پنجاب یونین آف جنرلسٹ کے صدر کے طور پر میرے بعد آئی ایچ راشد صدر منتخب ہوئے ان کو چارج دیتے ہوئے جو کہ ایک بال پوائنٹ کی شکل میں تھا میں نے کہا کہ کسی دیہاتی کو انگریزی میں ٹیلی گرام آیا۔وہ سڑک پر آنے جانے والوں میں انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں کی تلاش میں تھا کہ ایک بہت بڑی پگڑی میں سکھ گھوڑے پہ جاتا دکھائی دیا دیہاتی اس کے پیچھے بھاگا اور کہا ’’میرا تار پڑھ دیں‘‘ کافی دور جاکہ گھڑ سوار نے کہا کہ ’’مجھے انگریزی نہیں آتی ۔’’دیہاتی ہنسا اور کہا ‘‘ اتنی بڑی پگڑ پہنتے ہو اور انگریزی نہیں آتی‘‘۔ سکھ نے اپنے سر سے پگڑ اتار کر دیہاتی کے سر پر رکھ دی اور کہا ’’لے ہن تو پڑھ لے ‘‘میں نے آئی ایچ راشد سے کہا ’’لے ہن تو پڑھ لے ‘‘ اور آئی ایچ راشد نے میرا شکریہ ادا کیا، جبکہ حاضرین تقریب مسلسل قہقہے لگا رہے تھے۔ناصر نقوی جمع تفریق کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان میں نیکیوں کو تفریق کیا جبکہ خرابیوں کو ضرب دینے کی کوشش کی ہے ۔یہ کالم اسی عنوان سے کتاب کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

تازہ ترین